• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی ترجمان کا اثاثوں کے غلط ڈکلیریشن کا جواب دینے سے گریز

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور ترجمان فواد چوہدری نے ٹاک شو کے دوران جہلم سے 31؍ اگست 2016ء کا ضمنی انتخاب لڑنے کیلئے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں اثاثوں اور دوسری اہلیہ حبا خان کے نام پر موجود بینک اکائونٹس کی غلط معلومات فراہم کرنے کے متعلق پوچھے گئے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ سوال کا جواب دینے کی بجائے انہوں نے صحافیوں پر تنقید کرنا شروع کر دی اور کہا کہ میرے پاس بھی آپ کی کافی باتیں ہیں۔

دی نیوز کے نمائندے احمد نورانی نے ایک ٹاک شو کے دوران فواد چوہدری سے پوچھا کہ چونکہ وہ ایک سیاست دان ہیں اور ایک بڑی پارٹی کے نمائندے ہیں اسلئے انہیں میڈیا کے سوالوں کا جواب دینا چاہئے۔ نورانی نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے اثاثوں اور بیوی کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات کاغذات نامزدگی میں ظاہر کی ہے یا نہیں۔

نورانی نے مزید سوال کیا کہ اگر انہوں نے اثاثوں اور حبا خان کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں تو کیا وہ جہلم سے الیکشن لڑنے کے اہل تھے اور کیا وہ آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے؟ سوال کا جواب دینے کی بجائے فواد نے کہا کہ یہ ان کی ذاتی زندگی ہے اور نورانی ذاتی حملے کر رہے ہیں۔ جب فواد نے نورانی سے کہا کہ میرے پاس بھی آپ کی کافی باتیں موجود ہیں تو نورانی کا کہنا تھا کہ آپ وہ راز سامنے لائیں۔ تاہم، نورانی کے اصرار کے باوجود، فواد اس بات پر ایک لفظ تک نہ کہہ سکے۔

فواد سے دوبارہ پوچھا گیا کہ کوئی آپ کی ذاتی زندگی کے متعلق سوال نہیں کر رہا اور ان سے صرف اثاثوں کے متعلق غلط بیانی کے متعلق سوال کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ سیاست دان ہیں۔ فواد نے کہا کہ یہ سوال پوچھ کر ان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فواد نے کہا کہ نورانی کو چاہئے کہ وہ دی نیوز کی واٹس ایپ کال کی خبر کے متعلق بتائیں ۔

فواد نے الزام عائد کیا کہ نورانی اور دی نیوز کے انوسٹی گیشن سیل کے دیگر ارکان سپریم کورٹ کے ججوں کو بدنام کرنے کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ فواد نے کہاکہ دی نیوز میں شائع خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ تمام قومی اداروں نے جے آئی ٹی کے تمام الزامات غلط ثابت کئے جیسا کہ فواد نے اپنا بھڑکنا جاری رکھا۔ نورانی نے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ وہ جوا ب دینا چاہتے ہیں لیکن فوادانہیں اجازت نہیں دے رہے تھے۔ تاہم فواد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’میں آپ سے سوال پوچھ رہا ہوں۔ آیا آپ کسی ایجنڈے کے تحت کام کررہے ہیں اور آپ نے سپریم کورٹ کے ججوں کو بدنام کرنےکی مہم چلا رکھی ہے؟ فواد نے تمام حدود پار کر لیں اور سنگین الزامات عائد کئے۔

فواد نے کہا‘‘کیا آپ ججوں کے خلاف مہم چلانے کیلئے پیسے لے رہے ہیں؟ اس مہم کے لئے کیا آپ مسلم لیگ (ن) رقم دے رہی ہے؟ مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر مصدق جو پروگرام میں موجود تھے، مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ الزامات عائد کرکے فواد مسلم لیگ (ن) پر رشوت دینے کا الزام لگا رہے ہیں جو غلط ہے۔ نورانی نے مداخلت کی اور ڈاکٹر مصدق سے کہا کہ وہ فواد کو کوئی بھی سوال کرنے دیں۔ اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن فواد کو بھی جواب سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔

اپنی دوسری بیوی کے نام اثاثوں کے نان ڈیکلریشن سے متعلق سوال پر فواد جو مشتعل ہو کر بیٹھے تھے، کہاکہ وہ صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ مہم چلانے کیلئے آیا پیسہ لیا گیا تھا یا نہیں اور جیسا کہ بدھ کو جاوید ہاشمی نے جس طرح مہم شروع کی۔ دی نیوز کی ٹیم نے بھی اسی طرح کیا؟ نورانی نے کہاکہ فواد کو پوچھے گئے سوال کا جواب دینا چاہئے اور وہ نورانی کو بھی سوالات کے جواب دینے کی اجازت دیں، وہ رکے بغیر پوچھے چلے جارہے ہیں فواد نے کہا اگر آپ واٹس ایپ کال کے سوال کاجواب دینا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ کال منقطع کردی جائے گی۔

نورانی نے خفیہ واٹس ایپ کال کی خبر کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا جب مواد نے جب اپنے اثاثوں کے غلط ڈیکلریشن کے سوال پر جواب دینے س صاف انکار کردیا ۔

نورانی اس بات پر قائم ہے کہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والی 5رکنی بنچ نے تمام اداروں کے سربراہوں کو جے آئی ٹی میں افسران نامزد کرنے کی ہدایت کی اور عمل درآمد بنج ناموں کو حتمی شکل دے گی۔ تاہم ایس ای سی پی اوراسٹیٹ بینک کے سربراہوں کو ایک کال میں فیس ٹائم / واٹس ایپ خفیہ کال وصول کرنے کیلئے کہا گیا۔ خفیہ کالز کے دوران ان دو اداروں کے سربراہوں کو مخصوص شخصیات کی نامزدگی کا حکم دیا گیا۔

جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مخصوص پس منظر کے حامل ہیں۔ نورانی نے کہا کہ کوئی بھی کسی بھی افسر کے نام کو حتمی شکل دینے کے لئے عدالت عظمیٰ کے اختیارات پر سوال نہیں اٹھا رہا اوریہ بات واضح تھی کہ عمل درآمد بنچ میں موجود سپریم کورٹ کے ججز کو اس سلسلے میں مکمل اختیار حاصل ہے۔

نورانی نے سوال کیا’’ جب اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے اختیار پرکوئی سوال نہیں کہ افسران کے ناموں کے اعلان کاحکم کیوں نہیں جاری کیاگیا۔ اس کے بجائے خفیہ واٹس ایپ کالز کی گئیں تاکہ مخصوص پس منظر کی شخصیات کو جے آئی ٹی میں شامل کیا جائے۔ ان خفیہ کالز کا مقصد کیا تھا؟

اس سے صاف تعصب اورجانبداری ظاہر ہوتی ہے۔ نورانی ایشو پر بات کررہے تھے، ان کی کال فواد کے نورانی کو غلط ڈیکلریشن کے حوالے سے سادہ سے جواب کے  بغیر ڈراپ ہوگئی۔ نورانی اوران کی ٹیم کو اپنے خلاف سنگین الزامات کے جوابات کا موقع دیئے بغیر منقطع ہوگئی۔

فواد دی نیوز کے خلاف برسنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران دی نیوز کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی نے خبرد ی کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر مرحوم اور دیگر نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف کے قتل کی سازش تیار کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ایک بار پھر سے انصار عباسی اوران کی ٹیم نے عدلیہ کے خلاف مہم شروع کردی ہے۔ تاہم ڈاکٹر  مصدق ملک نے کہاکہ اس مرحلے پر نورانی کا واٹس ایپ کال اسٹوری پر مؤقف واضح ہے کہ جے آئی ٹی رکن کی تقرری پر ججوں کے اختیارات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

لیکن اس مقصد کے لئے طے کردہ طریقہ کار کے تحت جے آئی ٹی قائم نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ نورانی نے اس مقصد کے لئے واٹس ایپ کالز پر نکتہ اٹھایا ہے۔ یہ ان کی کہانی تھی۔ پروگرام کے ایک اور شریک مصطفیٰ نواز نے دریافت کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں کسی کمیشن کے لئے ارکان کاتقرر چیف جسٹس خود کیا کرتے تھے، اس وقت کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ تاہم درحقیقت اس دور میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کسی بھی کمیشن یا انکوائری کمیٹی کے رکن کا کسی خفیہ کال نہیں بلکہ کھلی عدالت میں اعلان کیا کرتے تھے۔

تازہ ترین