• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری: دھماکے اور فائرنگ، پورا ملک سراسمیگی کی کیفیت میں مبتلا

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) یہ جمعۃ الوداع کے دن کا آغاز تھا کوئٹہ شہر دھماکے سے دھل گیا معلوم ہوا کہ دہشت گرد پولیس کے صوبائی سربراہ کے دفتر کو ہدف بنانے کے خواہاں تھے کہ پولیس کی پڑتال کے دوران بارود پھاڑ دیا گیا تیرہ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے پندرہ سخت زخمی بھی ہوئے دن بھر اس خونچکاں واقعہ پر نقد و نظر ہوتی رہی دن ڈھلنے کی طرف مائل تھا کہ پارا چنار میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے اور پچیس افراد لقمہ اجل بن گئے ایک سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے غروب آفتاب ہوتے ہی کراچی میں پولیس اہلکاروں پر اس وقت گولیاں چلادی گئیں جب وہ دن بھر کی تھکن آلود ذمہ داریوں کی انجام دہی کے بعد روزہ افطار کررہے تھے چار پولیس اہلکار دہشت گردی کے اس واقعہ میں موت سے ہمکنار ہوگئے۔ رات کی تاریکی اترتے اترتے پورا ملک سرسیمگی کی کیفیت میں مبتلا ہوچکا تھا جہاں دہشتگردوں کے خلاف عسکری قیادت کا آپریشن ردالفساد جاری ہے جس میں فوج بڑی بے جگری سے غیر مرئی دشمن کے خلاف لڑ رہی ہے۔ دوسری جانب سیاسی منظر پر پاناما سازش کیس چھا کر رہ گیا ہے ہزاروں میل دور سے آئی دستاویزات کو بہانہ بنا کر ملک کی مسلم الثبوت قیادت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس بین الاقوامی سازش کے تانوں بانوں کا سراغ لگانے کی بجائے سازشیوں کے ارادوں کی تکمیل کرتےہوئے اپنے ہی ملک کی قیادت کو ہدف بنایاگیاہے۔اس مقصد کے لئے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیکر قیاس آرائیوں کے طوفان کو امڈنے کا موقع مہیا کردیا گیاہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم کواپنا مقصد پانے کے لئے کوئی دوسرا نہیں رحمٰن ملک نامی شخص کی شہادت قلمبند کرنے اور ثبوت پیدا کرنے کا مکلف ہونا پڑا ہے کسی معاملے میں رحمٰن ملک کا نام آتے ہی صداقت کافور ہوجاتی ہے اور ہنسی چھوٹ جاتی ہے اس تحقیقاتی ٹیم کی وقعت اور اعتماد کو جس قدر گزند جمعۃ المبارک کی گواہی نے پہنچائی ہے شاید ہی کسی دوسرے حوالے سے اس قدر نقصان پہنچا ہو۔ پاناما سازش کیس کے ذریعے جن طاقتوں نے پاکستان کوسیاسی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس مقصد کے لئے انہیں ایک معروف کھلاڑی کاچہرہ میسر آگیا ہے اب وہ ایک مرتبہ پھر امن و سکون کے حوالے سے پاکستان میں ابتری اور مزید غیر یقینی پن کاماحول پیدا کرنے کے لئے سرگرم ہوگئی ہیں۔ بادی النظر میں یہ دونوں ایک ہی مذموم مقصد کو آگے بڑھانے کے لئےانجام دی جارہی ہیں۔ دہشت گردوں کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں حکومت کو مشکل سے دکھائی دینے والے سیاستدانوں نے عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے اب انہیں اپنا کام دکھانے میں مطلوبہ آزادیاں حاصل ہیں۔ پاناما سازش کیس جس میں وزیراعظم نواز شریف ان کے بھائی شہباز شریف اور داماد کیپٹن محمد صفدر کے نام سرے سے موجود ہی نہیں انہیں متنازع تحقیقاتی عمل کے ذریعے رگیدا جارہا ہے یہ سب اسی سازش کا شاخسانہ ہے جس میں حقیقی ہدف پاکستان کی ترقی کے امکانات ہیں اس کے ڈانڈے پڑوس کے دارالحکومت سے لیکر دنیا کے بعض بڑے بڑے مراکز سے ملتے ہیں۔ ایسا ملک جس کی فوج نے جنگ شروع کر رکھی ہو اس کے لئے سب سے بڑا ہتھیار یک جہتی ہوتاہے ۔ رمضان المبارک اپنی برکتوں اور سعادتوں سمیت رخصت ہورہا ہے عیدالفطر کی آمد آمد ہے جس کےبعد ملک میں سیاست کی سرگرمیاں ایک مرتبہ پھر بام عروج کی طرف بڑھیں گی۔ توقع ہےکہ آئندہ ہفتوں میں قومی سیاست ہنگامہ آرائی کے ایک نئے عہد میں داخل ہوگی جس میں سیاست سے زیادہ الزام و دشنام کا طومار باندھا جائے گا۔ استحکام شکن عناصرکا خیال ہے کہ وہ ملک عزیز کے امن و سکون کو غارت کرنے میں کامیاب رہیں گے جبکہ حکومتی حلقوں کو یقین ہےکہ ان کے بد خواہ ماضی کی طرح اب بھی ناکام و نامراد رہیں گے اور کف افسوس ملنےکے سوا ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ آئندہ مہینے سے شروع ہونے والی صف بندیاں ملک میں آئندہ انتخابات کے انعقاد تک جاری رہیں گی اس عرصے میں حکومت کی لامحالہ سرتوڑ کوشش ہوگی کہ اس کے جن منصوبوں کو گزشتہ چار سال میں شروع کیا گیا تھا وہ پایہ تکمیل کو پہنچیں تاکہ وہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے عوام کی عدالت میں سرخرو ہوسکیں۔ حکومت کے مخالفین کیا چاہتے ہیں یہ بات محتاج بیان نہیں ہے۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس میں ر ونما ہورہے واقعات سے بھی لا تعلق نہیں رہا جاسکتا قومی ہی نہیں علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں برپاہوئے معاملات میں پاکستان کو کلیدی نہیں تو اس سے کم حیثیت حاصل نہیں ان حالات میں ملکی امور کے بارے میں انتہائی احتیاط کے مظاہرے کی ضرورت ہے جو لوگ محض نعروں اور بدزبانی کے سہارے اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے ہیں انہیں بھی حدود میں رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔  

تازہ ترین