• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجی چینل پروگرام انعقاد کیلئے این او سی کس قانون کے تحت جاری ہوا،اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (خبر نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی زندگی کے پروگرام ”عیدی سب کیلئے“ کی ریکارڈنگ کے دوران اسٹیج گرنے کے واقعہ پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی درخواست پر وکلاءکو کیس کی تیاری کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 3 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ اس نکتے پر معاونت کریں کہ پروگرام کے انعقاد کیلئے این او سی کس قانون کے تحت جاری کیا گیا اوراس کی خلاف ورزی پر کیا قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے اے آر وائی زندگی کے پروگرام ”عیدی سب کیلئے“ کی بحریہ انکلیو میںریکارڈنگ کے دوران سٹیج گرنے سے زخمی ہونے والے 8 متاثرین کی درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد نے پروگرام کی ریکارڈنگ کا این او سی جاری کیا مگر اس کی شرائط پرعمل نہیں کرایا۔ حادثے کے بعد پروگرام منتظمین کا کردارمنفی تھا جنہوں نے بتیاں بجھا کر زخمیوں کی مشکلات میں اضافہ کیا اور انہیں طبی امداد فراہم کرنے کا بندوبست کرنے کے بجائے موقع سے فرار ہو گئے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں این او سی کی شرائط پر عمل کرانے کی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی ، اس قانونی نکتے پر معاونت کریں کہ پروگرام کی ریکارڈنگ کیلئے این او سی کس قانون کے تحت جاری کیا گیا اور خلاف ورزی پر کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 3جولائی تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ عبدالمنیم درانی وغیرہ کی جانب سے دائر درخواست میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد ، چیف کمشنر آئی سی ٹی ، آئی جی پولیس اسلام آباد ، چیئرمین پی ایم ڈی سی ، پیمرا ، ایم ایس پولی کلینک ، پمز ، شفاءانٹرنیشنل ہسپتال ، نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کمیونیکیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ وغیرہ کو فریق بناتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کی جانب سے 28 اپریل 2017ءکو بحریہ انکلیو اسلام آباد میں پروگرام ”عیدی سب کے لئے“ کی ریکارڈنگ کے دوران سٹیج ٹوٹنے سے ایک شہری ہلاک اور 150 کے قریب بچے ، عورتیں اور مرد زخمی ہوئے۔ سٹیج گرنے کے فوری بعد انتظامیہ نے لائٹس بند کر دیں جس سے مزید بھگدڑ مچ گئی اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ نازک صورتحال کے پیش نظر پروگرام انتظامیہ زخمیوں کو تڑپتا چھوڑ کر موقع سے فرار ہو گئی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ این او سی میں واضح طور پر لکھا ہے کہ (i) شرکاءکے لئے ڈاکٹرز اور ایمبولینسز سمیت دیگر انتظامات کئے جائیں گے (ii) منتظمین شرکاءکے تحفظ اور سیکورٹی کے ذمہ دار ہوں گے (iii) منتظمین پروگرام کے انعقاد کے لئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کو یقینی بنائیں گے (iv) خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ قوانین کے تحت انتظامیہ کارروائی کرنے کی مجاز ہو گی۔ درخواست کے مطابق پروگرام میں 3500 کے قریب خواتین ، بچے اور مرد حضرات شریک تھے۔ منتظمین نے پروگرام کے لئے 20 فٹ اونچا سٹیج تیار کر رکھا تھا۔ تقریباً رات 8 بجے کے قریب جب پروگرام شروع ہونے ہی والا تھا تو اچانک سٹیج ٹوٹ گیا اور بلندی سے نیچے گرنے کے باعث شرکاءکو شدید چوٹیں آئیں۔ پروگرام کے منتظمین نے زخمیوں کی مدد کرنے کی بجائے پہلے زلزلے کی افواہ پھیلائی اور پھر لائٹس بند کر دیں جس سے زخمیوں کو اٹھانے میں مزید مشکلات پیدا ہو گئیں ، بعد ازاں منتظمین موقع سے فرار ہو گئے۔ زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتالوں میں پہنچایا گیا۔ ٹی وی چینلز نے بھی واقعہ کی کوریج نہیں کی جبکہ ہسپتالوں میں بھی زخمیوں کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے مرہم پٹی کر کے فارغ کر دیا گیا۔ پولیس بھی کارروائی کرنے سے گریزاں رہی اور اتنے بڑے واقعہ پر پولیس نے متاثرہ افراد کے بیانات تک قلمبند نہیں کئے۔ عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعے کا علم ہوا جس پر میڈیا نے بھی واقعہ کی خبریں شائع کیں اور سرکاری انتظامیہ حرکت میں آئی۔ سٹیج گرنے کے واقعہ کی خبریں شائع ہونے پر متاثرین پر معاملات طے کرنے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور معمولی معاوضے کے عوض بیان حلفی لینا شروع کر دئیے کہ یہ واقعہ غفلت کے باعث پیش نہیں آیا۔ قانونی حقوق سے بے خبر بعض متاثرین نے مبینہ طور پر معاملات طے کر لئے لیکن درخواست گزاروں سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواستیں دینے کے باوجود تھانہ نیلور پولیس نے مقدمہ درج کرنے کی بجائے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کو معاملات طے کرنے کا مشورہ دینا شروع کر دیا۔ بعد ازاں 12 مئی کو سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے قرار دیا کہ تمام صورتحال میں اسلام آباد انتظامیہ نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ اس پر تھانہ نیلور پولیس نے مقدمہ نمبر 84/2017 درج کیا جبکہ اس حوالے سے 30 سے زائد درخواستیں دی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے باوجود فریقین نے متاثرین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ، درخواست گزاروں کو خدشہ ہے کہ انہیں انصاف نہیں مل سکتا اور جب تک عدالت کوئی حکم جاری نہیں کرتی ان کے بنیادی حقوق کو تحفظ نہیں ملے گا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ این او سی پر عملدرآمد نہ کرانے اور منتظمین کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد ، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس اسلام آباد سے وضاحت طلب کی جائے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور چیف کمشنر اسلام آباد کو حادثہ کی اصل وجہ معلوم کرنے ، پروگرام کے منتظمین کے خلاف کارروائی اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو معاملے کی شفاف تحقیقات کرنے کی ہدایت کی جائے۔ پی ایم ڈی سی کو ڈاکٹروں کی غفلت کا نوٹس لینے کاحکم دیا جائے۔ پیمرا سے کہا جائے کہ وہ اتنے بڑے واقعہ کی خبر نشر نہ کرنے پر متعلقہ ٹی وی چینلز سے بازپرس کرے اور الیکٹرانک میڈیا ضابطہ اخلاق 2015ءکے تحت اس پر ایکشن لیا جائے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو ہدایت کی جائے کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس تجاویز مرتب کریں اور ان پر عملدرآمد کیا جائے۔ 

تازہ ترین