• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارہ نمبر29،(خلاصہ تراویح)
مولانا ڈاکٹر سعید احمد صدیقی
’’سورۃ الملک‘‘
الحمدللہ آج ہم انتیسویں پارے کا خلاصہ پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جس کی ابتدا ’’سورۃ الملک‘‘ سے ہو رہی ہے جوکہ ترتیبی اعتبار سے یہ قرآن پاک کی سورت نمبر67ہے، اس کا نزولی نمبر77ہے، یہ مکی سورت ہے، پہلی آیت میں لفظ ’’الملک‘‘ آیا ہے اس مناسبت سے سورئہ ملک کہلاتی ہے۔ آپؐ کے فرمان کے مطابق ’’قرآن کریم میں تیس آیات ہیں جو اپنے پڑھنے والے کےلئے سفارش کرتی ہیں چنانچہ اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔‘‘ یہ سورت عذاب قبر سے بچانے والی ہے۔ علماء و مشائخ کا معمول ہے اسے نماز عشاء کے بعد پڑھتے ہیں۔
مالک و قدیر:
زمین و آسمان کا حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہے، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اسی کے ہاتھ میں زندگی و موت، عزت و ذلت فقر و غنا، دینے اور روکنے کا نظام ہے۔
نعمتیں عذاب بن جائیں:
اگر اللہ چاہے تو زمین و آسمان جس سے انسان کو رزق مہیا ہوتا ہے، انسانوں کےلئے دردناک عذاب بن جائیں، آسمان ٹوٹ پڑیں، زمین پر زلزلہ آ جائے، اللہ تعالیٰ اگر اپنی نعمتوں کو واپس لے لے تو کون دوبارہ دلا سکتا ہے۔
’’سورۃ القلم‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر68ہے جب کہ نزولی نمبر02ہے، یہ مکی سورت ہے، پہلی آیت میں ’’القلم‘‘ آیاہے اس مناسبت سے سورئہ قلم کہلاتی ہے۔ یہ سورت، قلم کی عظمت اور اس کے عظیم نعمت ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔
آپؐ کے اخلاق و مناقب:
قسم کھا کر فرمایا کہ آپؐ اپنے رب کے فضل سے غافل نہیں، آپؐ کےلئے بے انتہا اجرہے اور آپؐ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
باغ والوں کا قصہ:
باغ کا مالک اس کی پیداوار میں سے غرباء پر خرچ کرتا تھا لیکن جب اس کی اولاد اس باغ کی وارث بنی تو اپنے اخراجات اور مجبوریوں کا بہانہ بنا کر مساکین کو محروم رکھنے کی کوشش کی تو اللہ نے ان کا باغ تباہ کر دیا۔
پرہیزگاری اور متقی:
پرہیزگاروں کا ٹھکانہ جنت ہے اور محسن و مجرم، فرماں بردار اور نافرمان، باغی اور وفادار برابر نہیں ہو سکتے۔
بے بسی:
دنیا میںجو اللہ کے آگے سجدہ نہیں کرتےتھے آخرت میں ان سے سجدہ کرنے کا اختیار چھین لیا جائے گا، وہ رب کو سجدہ نہ کر سکیں گے۔
نظربد:
اس سورت کی آخری دو آیات ’’وان یکادو…ذکر للعالمین‘‘ پڑھ کر دم کرنے سے نظر بند دور ہو جاتی ہے، آخر میں آپؐ کو صبر کی تلقین ہے۔
’’سورۃ الحاقہ‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر69جبکہ نزولی نمبر78ہے، پہلے لفظ ’’الحاقہ‘‘ کی مناسبت سے سورئہ حاقہ کہلاتی ہے۔
قیامت کی ہولناکیاں:
سورت کی ابتدا میں قیامت کی ہولناکیوں اور قوم ثمود، عاد، لوط اور فرعون جیسی قوموں کے برے انجام کا بیان ہے۔
قیامت سے پہلے:
صور پھونکا جائے گا، زمین اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، فرشتے انسانوں کا احاطہ کئے ہوں گے۔
نیک بخت اور بدبخت:
نیک لوگوں کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ لوگوں کو دکھاتے پھریں گے، انہیں جنت کی ابدی راحتیں نصیب ہوں گی، جو بدبخت ہوں گے، ان کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ سخت افسوس کریں گے اور وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے، وہ دنیا میں اللہ پر ایمان نہیں لائے تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
قرآن حق ہے:
قرآن کے حق ہونے کا اعلان ہے، یہ کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں، بلکہ اللہ کا کلام ہے، جو ڈرنے والوں کےلئے نصیحت ہے اور جھٹلانے والوںکے لئے حسرت ہے۔
’’سورۃ المعارج‘‘
ترتیبی نمبر70ہے جب کہ نزولی نمبر79ہے، یہ مکی سورت ہے، لفظ ’’المعارج‘‘ کا ذکر ہواہے اس مناسبت سے ’’سورئہ معارج‘‘ کہلاتی ہے۔
عذاب کے متمنی:
مشرکین مکہ آپؐ کی دعوت کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ عذاب جس سے ڈراتے ہیں، آ کیوں نہیں جاتا؟ آپؐ سے کہا گیا آپؐ ان کی باتوں پر صبر فرمائیں، قیامت کا دن ضرور آئے گا، جس دن آسمان تانبے کی طرح ہو جائے گا اورپہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اور مجرم تمنا کریں گے کہ مال و اولاد دے کر اس عذاب سے بچ جائیں۔
حریص اور بے صبر:
انسان پیدائشی طورپر حریص اور بے صبر ہے کہ جب نقصان پہنچتا ہے تو بے تاب ہو جاتاہے اور جب آرام اور خیر پہنچتی ہے تو بخیل ہو جاتا ہے۔
مومنین:
وہ اہل ایمان ایسے نہیں ہیں، جو نماز پڑھتے ہیں، اپنے مال سے مانگنے والوں اور محروم لوگوں کی مدد کرتے ہیں، صدقہ خیرات کرتے ہیں، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بدکاری سے دور رہتے ہیں، وعدہ پورا کرتے ہیں، امانت میں خیانت نہیں کرتے، حق کی گواہی دیتے ہیں۔ آخر میں فرمایا مرنا اور پھر دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔
’’سورئہ نوح‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر71ہے جب کہ نزولی نمبر بھی71ہے، یہ مکی سورت ہے، حضرت نوحؑ کا ذکر ہے اسی مناسبت سے ’’سورئہ نوح‘‘ کہلاتی ہے۔
اللہ کی طرف دعوت:
آدم ثانی سیدنا نوحؑ نے ساڑھے نو سو برس اپنی قوم کو اللہ کی عبادت اور اپنی اطاعت کی دعوت دی اور بڑی کوشش کی، رات کو بھی دعوت دی، دن کو بھی، خفیہ بھی سمجھایا اور اعلانیہ بھی، لیکن وہ جتنی دعوت دیتے، قوم دور بھاگتی، کانوں میں انگلیاں ڈال لیتی۔
استغفار کی ہدایت:
حضرت نوحؑ نے اپنی قوم سے کہا اگر تم گناہوں سے رک جائو اور استغفار کرو تو اللہ بارش برسائے گا، مالوں اور بیٹوں سے نوازے گا، تمہارے لئے باغات اور نہریں جاری کرے گا، اللہ کی نعمتیں یاد کرو، سات آسمان، جگمگاتا چاند اور سورج تمہارے لئے بنایا۔
بددعا:
قوم نے سخت ستایا، منہ پھیر لیا، تکبر کیا تو نوحؑ نے بددعا کی تو شدید طوفان آیا تو سارے کافر اور بت پرست غرق ہو گئے۔
’’سورۃ الجن‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر72جب کہ نزولی نمبر40ہے، یہ مکی سورت ہے، جنات کا ذکر ہے، لفظ ’’الجن‘‘ آیا ہے اس مناسبت سے ’’سورئہ جن‘‘ کہلاتی ہے۔
جنات کا ایمان لانا:
جنات بھی انسانوں کی طرف شرعی احکام کے مکلف ہیں، ان میں بھی اچھے، برے اور مومن و کافر ہیں۔ آپؐ نخلہ کے مقام پر نماز فجر ادا کر رہے تھے تو جنات کی ایک جماعت کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپؐ کی زبان مبارک سے قرآن سنا تو کہا عجیب کلام ہے، جو نیک راہ دکھاتا ہے۔ انہوں نے ایمان قبول کیا اور اپنی قوم کو بھی ایمان کی دعوت دی۔
مساجد:
مساجد اللہ کی عبادت کی جگہ ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو، شرک نہ کرو۔
رسالت کی ذمہ داری:
رسولؐ کا کام دعوت دینا، اللہ کا پیغام پہنچاناہے، ماننا نہ ماننا، انسان کا کام ہے، ہاں نافرمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
نفع و نقصان:
آپؐ کو فرمایا گیا کہ لوگوں کو بتا دیں نفع و نقصان اللہ
کے ہاتھ میں ہے، وہ عالم الغیب ہے، البتہ وہ جس پیغمبر کو چاہتا ہے غیب کا علم وحی کر دیتا ہے۔
’’سورۃ المزمل‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر73ہے جب کہ نزولی نمبر03ہے، یہ مکی سورت ہے،۔ پہلی آیت میں ’’المزمل‘‘ آیا ہے اس مناسبت سے ’’سورئہ مزمل‘‘ کہلاتی ہے۔
آپؐ سے خطاب:
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو محبت و پیار سے مخاطب فرما کر کہا ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے‘‘ اور آپؐ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا بیان ہے جیسے آپؐ کا خالص اللہ کی طرف متوجہ ہونا، آپؐ کی عبادت، آپؐ کی اطاعت، آپؐ کا قیام و تلاوت اور آپؐ کا جہاد و مجاہدہ، اسی طرح مشرکین اور دشمنوں کی سخت باتوں پر صبر کی تلقین ہے اور یہ کہ عذاب و ہلاکت ان کا مقدر ہو چکی ہے۔
رات کو نماز میں طویل قیام:
آپؐ دن کو دعوت دیتے اور رات کو اللہ کے حضور طویل قیام فرماتے کہ آپؐ کے پائوں مبارک میں ورم آ جاتا، اس لئے اللہ نے آپؐ کو اختیار دیا کہ آدھی رات قیام کریں یا آدھی سے کچھ کم یا زیادہ۔
فرعون اور جھٹلانے والے:
اللہ تعالیٰ نے مکذبین کو ڈرانے کے لئے فرعون کا تذکرہ کیا جو کفر و سرکشی کی وجہ سے غرق ہوا۔
ہدایت:
آخر میں آپؐ کو نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور توبہ و استغفار کی ہدایت ہے۔
’’سورۃ المدثر‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر74ہے جب کہ نزولی نمبر04ہے، یہ مکی سورت ہے، پہلی آیت میں ’’المدثر‘‘ آیا ہے اس مناسبت سے ’’سورئہ مدثر‘‘ کہلاتی ہے۔
آپؐ کو حکم:
آپؐ کو حکم دیا گیا کہ اللہ کی طرف دعوت دیں، کفار کو ڈرائیں اور ان کی تکلیفوں پر صبر کریں۔
ولید بن مغیرہ:
آپؐ کا بدترین دشمن تھا، صاحب حیثیت، مال و دولت والا تھا، قرآن سنتا تو سمجھنے اور پہچاننے کے باوجود انکار کرتا، قرآن کو سحر اور جادو قرار دیتا، تکبر کرتا اس کی ہلاکت کی وعید سنائی گئی اور وہ ہلاک بھی ہو گیا۔
جہنم میں جانے کے اسباب:
اہل جنت، جہنم والوں سے پوچھیں گے تم کس جرم کی پاداش میں جہنم میں گئے تو وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتےتھے، شرارت پسندوںکے ساتھ مل کر دین کے خلاف منصوبے بناتے تھے، قیامت کا انکار کرتے تھے۔
’’قرآن‘‘ کتاب نصیحت:
آخر میں بتایا گیا کہ قرآن ایک نصیحت ہے، جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔
’’سورۃ القیامہ‘‘
ترتیبی اعتبار سے اس کا نمبر75جب کہ نزولی نمبر31ہے، یہ مکی سورت ہے، اس سورت میں زیادہ تر قیامت کا ذکر ہے اس لئے ’’سورئہ قیامہ‘‘ کہلاتی ہے۔
پور پور درست کرنا:
اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور گناہوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھا کر کہا کہ انسان گمان کرتا ہے کہ ہم اس کو جب ہڈیاں جائیں گی تو جوڑی نہیں جا سکتیں، ہم تو اس کی پوروں (جن سے فنگر پرنٹ لیتے ہیں) اس ہئیت اور شکل پر بنا دیں گے جس پر وہ تھے۔
قیامت کی ہولناکیاں:
نگاہ پتھرا جائے گی، چاند بے نور ہو جائے گا، سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں گے، انسان کہے گا آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے۔
مذمت:
ایسے شخص کی مذمت کی گئی جس نے سرکشی کی، حق کو قبول نہ کیا، نہ اللہ کے سامنے سر جھکایا اور تکبر اختیار کیا۔
انسانی حقیقت اور دوبارہ تخلیق:
انسان ایک منی کا قطرہ تھا، پھر بہتا ہوا خون، پھر گوشت کا لوتھڑا جس کو شکل و صورت دی گئی پھر نر اور مادہ بنا کر پیدا کیا گیا جب اللہ اس طرح تخلیق کر سکتا ہے تو اس پر بھی قادر ہے دوبارہ زندہ کرے۔
’’سورۃ الدھر‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر76جب کہ نزولی نمبر98ہے، یہ مدنی سورت ہے، پہلی آیت میں لفظ ’’الدھر‘‘ (زمانہ) آیا ہے، اس مناسبت سے ’’سورئہ دہر‘‘ کہلاتی ہے۔ اسے ’’سورۃ الانسان‘‘ بھی کہتے ہیں، آپؐ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں اس کی تلاوت فرماتے۔
اللہ کی قدرت:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف ادوار میں پیدا فرمایا، اسے سننے، دیکھنے اور عقل و فہم کی قوت سے نوازا۔
شاکر اور کافر:
اب انسان یا تو رب کا شکرگزار ہے کہ وہ نذر کو پورا کرتا ہے، قیامت کے دن سے ڈرتا ہے اور اللہ کی رضا کےلئے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتا ہے، ایسے لوگ جنت کے حقدار ہیں جہاں نہ سردی ہو گی نہ گرمی اور نہ دکھ اور غم اور جو ناشکری کرتے ہیں، کافر ہیں ان کےلئے زنجیریں، طوق اور شعلوں والی آگ ہے۔
آپؐ کو نصیحت:
آپؐ کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ ہم نے آپؐ پر بتدریج قرآن نازل کیا، پس آپؐ اپنے رب کے حکم پر قائم رہیں، کسی گناہ گار یا ناشکرے کا کہا نہ مانیں، اپنے رب کا ذکر صبح و شام کریں اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کریں۔
’’سورۃ المرسلٰت‘‘
اس سورت کا ترتیبی نمبر77ہے جب کہ نزولی نمبر33ہے، یہ مکی سورت ہے، پہلی آیت میں ’’المرسلٰت‘‘ کا لفظ آیا ہے، اس مناسبت سے ’’سورئہ مرسلٰت‘‘ کہلاتی ہے۔
قیامت حق ہے:
آہستہ اور تیز چلنے والی ہوائیں اور بادل کو منتشر کرنے والی ہوائیں اس بات پر شاہد ہیں کہ قیامت کا وعدہ حق ہے۔
صورت حال:
اس دن یہ صورت حال ہو گی کہ ستارے جھڑ جائیں گے، آسمان پھٹ جائیں گے، پہاڑ پراگندہ ہو جائیں گے اور انبیاء اپنی امتوں پر شاہد بن کر بلائے جائیں گے۔
جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت:
اس دن جھٹلانے والوںکےلئے ہلاکت ہے، سورت میں دس بار اس آیت کو دہرا کر قیامت سے ڈرایا گیا ہے۔
قدرت کے کرشمے:
اللہ کی قدرت کے کرشمے دیکھو جس میں زمین و آسمان کا نظام، پانی کی رسانی کا نظام دیکھو تواللہ جو زمین کو زندہ اور مردوں کو سمیٹنے والی بنا سکتا ہے، میٹھے پانی سے سیراب کر سکتا ہے، دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے۔
پرہیزگار اور جھٹلانے والے:
جھٹلانے والے جو اللہ کے سامنے سجدے نہیں کرتے، نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے، ان کو بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف لے جایا جائے گا جب کہ پرہیزگاروں کو سائے اور بہتے چشموں کے پاس جگہ دی جائے گی۔
تنبیہ:
آخر میں دوبارہ مجرموں کو تنبیہ کی گئی کہ کھا پی لو اور تھوڑے سے مزے کر لو، بالآخر تمہارے لئے ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

تازہ ترین