• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابل (جنگ نیوز) افغان طالبان نے دہرایا ہے کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء سے قبل افغانستان میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔ افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ نے عیدالفطر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ مزید غیر ملکی فوجیوں کو افغانستان تعینات کرنے سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔جنگ ختم کرنے یا اسے طول دینے کی ذمہ داری امریکا کے کندھوں پر ہے اور مزید فوجیں بھیجنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جارحیت کے ختم ہونے کے بعد پرامن طریقے سے افغان مسئلے کا حل ان کی پالیسی کا اہم جز ہے اور اسی وجہ سے طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کو پرامن حل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ بیان میں زیادہ تنقید امریکی پالیسیوں پر کی گئی ہے اور موجودہ صورتحال کا ذمہ دار بھی اسے ٹھرایا گیا ہے۔ ’یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ جنگ کا آغاز غاصبوں کی جانب سے ہوا ہے۔ وہ دنیا کے دور افتادہ علاقوں سے افغانستان پر قبضہ جمانے اور اسلامی نظام کے خاتمے کی نیت سے آئے ہیں۔ اس جنگ کو ختم یا طول دینا بیرونی غاصبوں پر منحصر ہے۔‘ہبت اللہ اخندزادہ کا اصرار تھا کہ امریکا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ افغانستان میں جنگ کے دوام، بمباری میں اضافے، افغانوں کے قتل عام، ان کی سرزمین میں اپنے سیاسی حریفوں کو ڈرانے اور جدید اسلحہ آزمانے، ان کی مزاحمت کو بدنام اور کمزور کرنے کی خاطر ان کے خلاف مختلف ناموں سے مسلح گروہوں کو سامنے لانے، ان کی فنڈنگ اور تشہیر کرنے، افغانوں کے درمیان قومی، علاقائی اور لسانی نفرتوں کو ابھارنے جیسے فتنوں کو بھڑکانے سے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔’اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ اپنی فوجی موجودگی اور تعداد میں اضافے سے ہمارے حوصلوں کو شکست دے دیں گے تو یہ بڑی غلط فہمی ہے۔ ہوشیاری یہ ہے کہ حقائق سمجھ کر اپنی جنگی پالیسی تبدیل کی جائے۔‘ افغان عوام کسی کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں۔‘‘اپنے پیغام میں آخر میں جنگجو کمانڈر ہیبب اللہ اخوندزادہ نے اپنے جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ اپنی کارروئیوں میں شہری ہلاکتوں کا باعث مت بنیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب بھی افغانستان میں جنگ ختم ہو جائے گی، تب وہ امریکہ سمیت تمام پڑوسیوں اور عالمی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات اور معاملات کو اصول کے دائرے میں نبھائیں گے۔’امارت اسلامیہ کسی کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی چاہتی ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتی ہے۔ اسی طرح کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی کہ افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کر سکے۔‘افغانستان میں طالبان کی شورش میں اضافے کے نتیجے میں امریکا اور نیٹو اس ملک میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ وہ مقامی سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت کا کام کر سکیں۔ یہ امر اہم ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں طالبان نے اپنے حملوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ کئی سکیورٹی ماہرین نے افغانستان میں تازہ پرتشدد واقعات پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔

تازہ ترین