• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی پناہ والوں کا مستقبل مخدوش امیگریشن قوانین … ڈاکٹر ملک کے ساتھ

کچھ ہفتے قبل ہی ایک کالم میں سیاسی پناہ والوں کے لیے ایک نئی حکومتی پالیسی کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا جس کو کہSafe Return Reviewکے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اب تک تو سیاسی پناہ گزیروں کے لیے یہ قانون تھا کہ اگر کسی شخص کو اپنے ملک میں ان کے مذہب، مذہبی نظریات، سیاسی وابستگی، سیاسی نظریات یا ایسی نوعیت کی کسی پریشانی کا سامنا ہو اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو تو وہ ان ممالک میں سے کسی ایک ملک میں پناہ طلب کرسکتے ہیں جنہوں نے اس ضمن میں اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔ عام طور پر بہت پہلے ایسی درخواستوں پر ہمدردانہ غور کیا جاتا تھا اور تقریباً ہر سیاسی پناہ کے متلاشی کو برطانیہ یا یورپ میں اسائلم یا سیاسی پناہ مل جاتی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب ایشیائی اور افریقی ممالک تک یہ خبر پہنچی کہ یورپ اور برطانیہ میں سیاسی پناہ کی بنیاد پر سکونت مل جاتی ہے تو برطانیہ آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی تعداد ہر سال اتنی زیادہ ہوگئی کہ حکومتی نظام اور اقدامات بری طرح ناکام ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد مرتبہ برطانیہ میں لاکھوں لوگوں کو ان کی درخواستیں دیکھے بغیر مستقل سکونت دے دی گئی۔ برطانیہ میں ہمارے ملک سے آکر آباد ہونے والوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد کو سیاسی پناہ یا اسائلم کی وجہ سے ہی سکونت ملی ہے۔ برطانیہ میں2010ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں جب کنزرویٹو پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو انہوں نے امیگریشن کے خاتمہ اور تارکین وطن کا قافیہ تنگ کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام تشکیل دیا اور اس پر تیزی سے عملدرآمد شروع کردیا۔ اس منصوبہ کے تحت صرف پانچ سالوں کے قلیل وقت میں لیبر پارٹی کی بنائی جانے والی تمام سکیمیں اور پالیسیاں ختم کردی گئیں اور امیگریشن قانون میں پینتالیس ہزار سے زائد ترامیم کرکے تارکین وطن کا جینا حرام کردیا گیا۔ عام طور پر اسائلم یا سیاسی پناہ کی درخواستوں کو ہوم آفس تسلسل کے ساتھ مسترد کردیتا ہے، لیکن اگر ایسے معاملات کو ہوم آفس کے فیصلوں کو عدالت میں لے جایا جائے تو وہاں سے کبھی کبھار اب انصاف مل جاتا ہے اور یوں عدالت سے فیصلہ ملنے والوں کو ہوم آفس برطانیہ میں پانچ سالوں تک رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ان پانچ سالوں کے اختتام پر ایسے لوگوں کو درخواست دینے پر برطانیہ کی مستقل سکونت مل جاتی تھی۔ برطانیہ کی مستقل سکونت کے بعد یہ لوگ اپنے ممالک میں آزادانہ جاسکتے تھے اور واپس آسکتے تھے۔ یہ معاملہ بہت خوش اسلوبی سے چل رہا تھا کہ حکومت نے اچانک مارچ میں ایک نئی پالیسی کا اعلان کردیا، جس کے تحت سیاسی پناہ کے حامل لوگ جب پانچ سال پورے کرنے کے بعد مستقل سکونت کی درخواست دیں گے تو حکومت ان کو مستقل سکونت دینے کے بجائے دوبارہ ان کے معاملات کو کھولے گی اور ان کی ازسرنو جانچ پڑتال کی جائے گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ ان کے ممالک کی صورت حال اب کیسی ہے؟ کہیں ان کی وابستگی رکھنے والی پارٹی برسراقتدار تو نہیں ہے۔ کیا اب بھی ان کی جان کو اپنے ملک میں خطرہ لاحق ہے، وغیرہ وغیرہ ابھی گزشتہ ہفتے ہی برطانیہ میں سیاسی پناہ کے بعد مستقل سکونت یعنی Indefinite Leave To Remain کا حامل ایک شخص جب پاکستان سے واپس برطانیہ آرہا تھا تو اسے ایئر پورٹ پر روکا گیا اور اسے اپنے وکیل یا کسی رشتہ دار سے رابطہ کی اجازت کیے بغیر اس کی مستقل سکونت یعنی Indefinite Leaveکو منسوخ کرکے اسے واپس پاکستان بھیج دیا گیا، یعنی ملک بدر کردیا گیا۔ اس کی ملک بدری کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں بتائی گئی، صرف یہ کہا گیا کہ اب اس کی جان کو اس کے آبائی ملک میں خطرہ لاحق نہیں رہا ہے۔ اس لیے اس کی مستقل سکونت کو منسوخ کیا جاتا ہے۔ اب ایسا شخص اگر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتا ہے تو حکومت نے یہ طریق کار بنا رکھا ہے کہ اپیل کا نمبر یا فیصلہ آنے میں تقریباً ڈیڑھ سال کا وقت لگ جاتا ہے۔ حکومت نے اپیلوں کے فیصلوں میں جان بوجھ کر تاخیر کا نظام بنا رکھا ہے۔ تاکہ لوگوں کو جلدی انصاف نہ مل سکے اور وہ اگر برطانیہ میں ہیں تو کام کی اجازت نہ ہونے کے باعث معاشی بدحالی کا شکار ہوکر یہاں سے اپنے ممالک واپس جانے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ حکومت اب تارکین وطن یا امیگرنٹس کو بری طرح رگید رہی ہے، خاص کرکے سیاسی پناہ کے حامل لوگوں کا مستقبل خاصا مخدوش ہوگیا ہے۔

تازہ ترین