• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کی تقسیم شدہ سوسائٹی روزآشنائی …تنویرزمان خان، لندن

برطانیہ کی زندگی کے سکوت میں جو تلاطم برپا ہوچکا ہے۔ اس سے یوں لگنے لگا ہے کہ جیسے روزانہ کی دہلا دینے والی خبروں کا مرکز کہیں سے تبدیل ہوکے ادھر کی دنیا میں شفٹ ہورہا ہو، دہشت گردی، نسل پرسانہ حملے، حادثات روزانہ کے حساب سے خبروں کی زینت بننے لگے ہیں۔ سیاست میں ہلچل نے علیحدہ طور پر اپنا سٹیج سجا رکھا ہے۔ اصل میں تو لندن اس سارے کھیل کی زد میں ہے جوکہ برے دور کی ابتدا محسوس ہورہی ہے۔ مانچسٹر ارینا کی دہشت گردی کے بعد پارلیمنٹ پر حملہ، بورو مارکیٹ اور لندن برج کے دہشت گردی کے واقعات فنسبری پارک مسجد پر حملہ، ریجنٹ پارک مسجد میں حملہ، گرین فیل ٹاور میں آگ جیسے یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات ذہنوں میں پریشانی کا ایک گولا بنائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مسلم انتہا پسندوں کی دہشت گردی ہے تو دوسری جانب اسلامو فوبیا اپنا رنگ دکھانے لگا ہے، مسلم کمیونٹی اس سیلاب کی زد میں زیادہ ہے کیونکہ جن واقعات کا ذکر کر چکا ہوں یہ تو وہ ہیں جو میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ برطانیہ بھر میں ایسے چھوٹے واقعات کی بھرمار ہے جوکبھی صرف سوشل میڈیا ان کا ذکر کرتا ہے۔ چند واقعات تو انفرادی سطح پر ہورہے ہیں لیکن بڑے واقعات کے پیچھے کوئی منظم گروہ اور تنظیم ہوتی ہے۔ جس طرح سے ISISیا القاعدہ کو مسلم دہشت گردی کے پیچھے سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلم کمیونٹی پر حملوں کے پیچھے یہاں کی تنظیمیں Britain Firstاور انگلش ڈیفنس لیگ EDL کو گردانا جاتا ہے۔ برٹن فرسٹ 2011ء میں برٹش نیشنل پارٹی کے ایک سابق رکن جم ڈاسن نے بنائی تھی۔ یہ پارٹی بنیادی طور پر برطانیہ میں ملٹی کلچرل ازم کے خلاف ہے، اس پارٹی نے اس وقت ہر خاص وعام کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی جب اسکے ارکان نے اسلامی انتہاپسند کے طور پر پہچانے جانے والے مسلمانوں کے گھروں کے باہر جاکر مظاہرے کئے۔ مساجد کے خلاف ایکشن ان کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ یہ آن لائن سرگرمیوں کے بھی بہت قائل ہیں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور عوام میں اپنا معتدل تاثر رکھنے کے لئے انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ جسکا مقصد اپنے تنگ نظر اور نفرت انگیز ایجنڈے کو ملک گیر کرنا بھی ہے۔ برٹش فرسٹ والے 2013/14میں لندن کی بارو ٹاور ہیملٹ میں مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لئے کرسچین پٹرول کے نام پر مہم چلاتے رہے ہیں۔ جس میں ان کے ارکان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں گلیوں میں پھرتے تھے اور جہاں مسلمان لڑکے لڑکی یا فیملی کودیکھتے تھے وہاں انہیں گالیاں نکالتے تھے۔ گو ان کے ایسے اقدامات کی پورے برطانیہ میں سب ہی مذمت کرتے رہے ہیں۔ برٹن فرسٹ والوں کا بنیادی مقصد اور منشور برٹش کرسچین اخلاقیات کا دفاع ہے۔ جوکہ انتہائی تنگ نظری والا منشور سمجھا جاتا ہے۔ انہیں حکومت پرتشدد رجحان رکھنےوالا تو سمجھتی ہے، لیکن انہیں تاحال دہشت گردی کے کھاتے میں نہیں ڈالا گیا۔ انگلش ڈیفنس لیگ بھی اسی طرح ایک دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم ہے۔ بلکہ یہ تنظیم سے زیادہ موومنٹ ہے جسکا ایجنڈا برطانیہ میں اسلامائزیشن کے خلاف سرگرم عمل رہنا ہے۔ یہ مسلمانوں کو کرسچین طرز زندگی کے لئے چیلنج سمجھتے ہیں۔ انہیں اسلام فوبک Islamophobicکہا جاتا ہے۔ انہیں کچھ عرصہ پہلے تک مسلم جہادیوں کے خلاف پورے یورپ کی سب سے بڑی موومنٹ سمجھا جاتا تھا۔ یہ تنظیم یا ان کا ہم خیال گروہ المہاجرون کی طرف سے ہونے والے مظاہروں کو کائونٹر کرنے کے لئےوجود میں آیا تھا۔ اسکے ممبران میں اینٹی مسلم عناصر بھرپور طریقےسے سرگرم ہیں انہوں نے 2011ء میں BNP(برٹش نیشنل پارٹی)کے ساتھ مل کر خود کو پارلیمانی سطح پر بھی بااثر بنانے کی کوشش کی تھی۔ اور برٹش فریڈم پارٹی کے نام پر اتحاد بھی قائم کیا تھا۔ ابھی بھی یہ لوگ مختلف مقامات پر مظاہرے کرکے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل بی بی سی کے ایک چینل پر EDLکے لیڈر کو بلایاگیا جو قرآن ہاتھ میں پکڑ کے اشتعال انگیز باتیں کررہا تھا۔ لیکن چینل کے اینکر نے اسے منع نہیں کیا۔ جس پر چینل والوں کو ہزاروں کی تعداد میں ایسے پیغامات موصول ہوئے کہ اس چینل کو اب ISISکے لیڈر کو بھی مدعو کرنا چاہئے کیونکہ لوگوں نے محسوس کیا کہ ایسا کرنے سے چینل والے مسلمانوں کے خلاف کشیدگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ویسے پورے یورپ اور برطانیہ میں اس قسم کے اشتعال انگیز پراپگینڈے سے مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ ایک طرف تو انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے داعی ہیں۔ دوسری طرف انتہاپسندی کو بڑھاوا دینے کے ہراقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ مذہبی کشیدگی کو دنیا میں برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ تاکہ یہ جنگ غریب اور امیر کی طبقاتی جنگ میں تبدیل نہ ہو۔ گرینفل ٹاور کی آگ پر میں اسلئے مختصر تبصرہ نہیں کررہا کیونکہ اسی پر ذرا تفصیلی بات چیت کی ضرورت ہے کیونکہ اس آگ کے متاثرین سے بھی جسطرح کا برتائو کیا گیا، وہ بھی ایک طبقاتی تقسیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیونکہ کہا جارہا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ چند وجوہات کی بنا پر ایسا ہورہا ہے ایک تو ان میں پناہ گزین بھی ہیں۔ دوسرا غریب لوگ ہیں تیسرا سفید فام نہیں ہیں چوتھا اس میں یہ کافی تعداد میں مسلمان ہیں۔ یہ تمام معاملات اس سوسائٹی میں تقسیم کے آئینہ دارہیں جس پر گہری بحث اور فکرکی ضرورت ہے۔

تازہ ترین