• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ صرف پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بسے ہوئے پاکستانیوں کی نظریں ملک کی عدالت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں۔ اس بار عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پاکستان کے لئے ایک تاریخ بنائے گا۔ ایک تاریخ اس عدالتی فیصلے نے بنائی تھی جو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی آڑ لے کر جسٹس منیر نے وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے خلاف دیا تھا اور جس کے نتیجے میں خواجہ ناظم الدین کی وزارت ختم ہوئی تھی اور مرحوم غلام محمد کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا گیا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ نے پاکستان کے استحکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں مختلف طالع آزمائوں نے پاکستان پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ مشرف صاحب کے این آر او نے تو پاکستان کو ذاتی جاگیر سمجھنے والوں کو مزید کھیل کھیلنے کا موقع دے دیا ۔ پاکستان میں ایک طویل مدت تک جمہوریت کو یرغمال بنائے رکھا گیا اور جب جمہوریت کے نام پر عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے اپنے سیاسی رہبروں کو کرسی اقتدار پر بٹھایا تو انہوں نے پاکستان کو اپنی وراثت قرار دے کر اپنے دور اقتدار کو طول دینے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ
خزانہ اپناکئی بار لٹ چکا دانش
خیال یہ تھا اسے دشمنوں نے لوٹا ہے
مگر یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی
کہ بار بار اسے دوستوں نے لوٹا ہے
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ نوبت آئی ہے کہ ایک وزیر اعظم سے اس کے ذرائع آمدنی کے بارے میں براہ راست معلومات کی جارہی ہیں۔ اصل میں تو یہ شاخسانہ ’’پاناما لیکس‘‘ کا ہے ، ورنہ اپنے عہدے پر متمکن وزیر اعظم سے کوئی اس کے مالی معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ کی جرات بھی نہ کرتا۔ اس ذیل میں عدالت عظمیٰ نے جو تحقیق ادارہ جے آئی ٹی کے نام سے ترتیب دیا ہے اسے بھی طرح طرح سے مطعون کیا جارہا ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک منصف اعلیٰ کو جے آئی ٹی سے کہنا پڑا کہ آپ کسی کی نہ سنیے، اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرتے ہوئے اپنی تحقیق جاری رکھئے۔ اس ذیل میں بعض بہت ہی قابل اعتراض بیانات بھی ذرائع ابلاغ کا حصہ بنے جنہیں پڑھ اور سن کر یہ یقین ہی نہیں آتا کہ ہمارے سیاسی رہنما ایسی غیرشائستہ زبان بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ دراصل یہ حکومت کے موافق اور مخالف دھڑوں کا کارنامہ ہے جو اپنی بات زور بیان سے اور ناشائستہ الفاظ کے ذریعے سے منوانا چاہتے ہیں۔ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ذرائع ابلاغ نے اب دنیا کو ایک ’’عالمی گائوں‘‘ بنا دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ ہی کا یہ کمال بھی ہے کہ اب عوام کے سوچنے کا طریقہ بھی بدل گیا ہے اور پہلے کے مقابلے میں اب دو اور دو چار کرنا نسبتاً آسان ہوگیا ہے۔ ایسے میں حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ صاحبان اقتدار ہر چند کوشش کریں کہ ’’معاملات‘‘ پر کوئی بات نہ کی جائے لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ معاروضی حالات میں یہ کہنا حقیقت سے دور نہ ہوگا کہ پاکستان، پاکستانی عوام، سوچ کی ایک نئی لہر سے دوچار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ آخری موقع ہے کہ پاکستان کو ایک مستحکم شکل حاصل ہو، اسی لئے ان کی نظریں اب عدالت عظمیٰ کے منصفین پر لگی ہوئی ہیں۔ ہمارے اعلیٰ منصفین بھی حالات کی نبض پہچانتے ہیں۔ ایک منصف کا یہ کہنا کہ ’’آندھی آئے یا طوفان فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا‘‘۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ اب بات نظریہ ضرورت سے بہت آگے بڑھے گی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جمہوری روایات چند سال میں نہیں بنتیں وہ برطانیہ کی مثال دیتے ہیں جس کی پارلیمنٹ ’’مدر آف جمہوریت‘‘ کہلاتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ برطانیہ کو اس درجے تک پہنچنے میں کئی سو سال لگے ہیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ کئی سو سال اس لئے لگے ہیںکہ عوام کا شعور اتنا بیدار نہیں تھا جتنا ذرائع ابلاغ اور تکنیک کی ترقی نے اب بیدار کر دیا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان میں ایک طرح سے جمود طاری ہے جس طرح بارش سے پہلے حبس کی کیفیت ہوتی ہے اور ہر آنکھ بارش کے پہلے قطرے کی منتظر ہوتی ہے۔ اسی طرح عوام کے دل دھڑک رہے ہیں اور عوام ہفتے عشرے میں اپنی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سننے کی متمنی ہیں۔ ہر دور میں صاحبان اقتدار یہ کہتے دیکھے گئے ہیں کہ ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ صاحبان نظر کو اس کا علم ہے کہ یہ ’’انتخاب‘‘ کن کن ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے دنیا میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور چونکہ پاکستانی مشرق وسطیٰ اور مغرب میں ایک بڑی تعداد میں بسے ہوئے ہیں اس لئے وہاں کی حکومتیں بھی پاکستان کی عدالت عظمیٰ اب پناما لیکس کا کیا فیصلہ سناتی ہے۔ پاناما لیکس میں جن افراد کے نام آئے ان میں سے بہت سوں نے بذات خود اقتدار سے کنارہ کشی کرلی کہ ان کے ممالک کی جمہوری اقدار بہت مضبوط تھیں۔ پاکستان میں پہلی بار عدالت عظمیٰ ایک بہت بڑی ذمے داری سے نبرد آزما ہے اور یہ معاملہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم گیلانی کی برطرفی سے بہت مختلف ہے۔ خدا ہمارے مصنفین اعلیٰ کو صحیح فیصلے کی استقامت عطا فرمائے۔

تازہ ترین