• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک کی آخری ساعتوں میں جمعۃ الوداع کے روز جب ملک بھر میں لوگ عید کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے،پارا چنار ، کوئٹہ اور کراچی میں ایک ہی دن میں دہشت گردی کی پے در پے وارداتوں میں 62 اہل وطن کا لقمہ اجل بن جانابلاشبہ پوری قوم کے لئے دلی صدمے کا باعث ہے۔حرم مکہ میں بھی اسی روز دہشت گردی کی ناکام کوشش کی گئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ کس قدر گمبھیر ہوچکا ہے اور کیسی بدقسمتی ہے کہ دشمنوں کی سازشوں کا شکارہوکر مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششوں کے نہایت مثبت نتائج کے باوجود یہ بہرحال حقیقت ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں نہایت گہری ہیں اور اس کے حتمی حل کے لیے ان بنیادی اسباب کا تدارک لازم ہے جن کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کو مسلسل افرادی قوت کی فراہمی جاری ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ دہشت گردی میں ملوث مذہبی عناصر کی ایک بڑی تعداد اس فکری گمراہی میں مبتلا کردی گئی ہے کہ اس کی یہ انسانیت سوز سرگرمیاں عین جہاد اور دین و ایمان کا تقاضا ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی بھارت کے متعصب اور تنگ نظر حکمراں پاک چین اقتصادی راہداری کے انقلابی منصوبے کی تکمیل کی شکل میں ہماری ترقی اور خوشحالی کے خوش آئند امکانات کو حقیقت بنتا دیکھ کر انگاروں پر لوٹ رہے ہیں اور اپنے سازشی اقدامات سے اسے ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے انکشافات کے مطابق بھارت بلوچستان میں اپنی خفیہ ایجنسی کے کارندوں کے ذریعے نوجوانوں کو علیحدگی پسندی پر اکسانے ، فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور تشدد کے رجحانات کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہے ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارا دوسرا پڑوسی افغانستان بھی جس سے ہمارے عقیدے، تاریخ اور تہذیب کے صدیوں پرانے رشتے ہیں بھارت کے زیر اثر یا ہمارے بارے میں غلط فہمیوں میں مبتلا ہوکر عملاً ہمارے مخالف کیمپ میں آ کھڑا ہواہے اور افغانستان کے بھارتی قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کی برملا پشت پناہی کررہے ہیں۔دریں حالات ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے عزم میں کسی کمزوری کے واقع نہ ہونے کے باوجود ذہنوں میں اس سوال کا ابھرنافطری ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے قومی تفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے ،وہ کافی ہے یا مزید بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے پہلی بات تو یہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں جہاں جہاں کمی ہے اسے جلد از جلد دور کیا جائے۔ دہشت گردی اور خود کش حملوںکے حوالے سے اس حقیقت کا ہر ممکن ذریعے سے عام کیا جانا ضروری ہے کہ قتل و غارت کی یہ کارروائیاں جن کا نشانہ بڑی تعداد بے قصور لوگ بنتے ہیں، اسلام کے نظام عدل و رحمت کے سراسر منافی ہے۔ اس حوالے سے پچھلے مہینے کی آخری تاریخوں میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے اکتیس نہایت ممتاز علمائے کرام کی جانب سے جاری کردہ متفقہ فتوے کی بڑے پیمانے پر نشر اشاعت ضروری ہے جبکہ پورے ملک خصوصاً بلوچستان اور فاٹا کے محروم علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کے ذریعے باعزت روزگار کے وسیع مواقع مہیا کرکے جن سے فائدہ اٹھانے کے لیے رشوت اور سفارش نہیں بلکہ صرف اہلیت کافی ہو نوجوانوں کو مایوسی سے نکالا جانا چاہیے نیز افغانستان سے تعلقات کو ماضی کی طرح خوشگوار بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر تمام ضروری تدابیر عمل میں لائی جانی چاہئیں، علاوہ ازیںفوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ افراد کے لیے معمول کی زندگی میں واپس آنے کا راستہ بھی کھلا رکھا جانا چاہیے تاکہ وہ لوگ جو اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں محض مجبوری کی بناء پر ان تنظیموں کے آلہ کار نہ بنے رہیں۔ بہرصورت وقت کا تقاضا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر ایک بار پھر قومی سطح پر غور وخوض کیا جائے اور اگراسے بہتر بنانے کی ضرورت محسوس ہو تو اس میں کسی لیت و لعل سے کام نہ لیا جائے۔

تازہ ترین