یادش بخیر۔ جب بھی پی ٹی وی پر موسیقی کا کوئی پروگرام نشر ہورہا ہوتا یا کسی محفل غزل میں کوئی میزبان پاکستانی میوزک پر اظہار خیال فرما رہے ہوتے تو ایک نام ایسا ہوتا جسے پکارنے سے پہلے وہ دنیا جہان کے القابات استعمال کرتے اور تعریف و توصیف کے پہاڑ کھڑے کر دیتے، غزل کی دنیا کا انہیں شہنشاہ کہا جاتا اور پھر لتا منگیشکر کا وہ قول دہرایا جاتا کہ اس گلوکار کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ جی بالکل، تشریف لاتے ہیں مہدی حسن خاں صاحب۔ موسیقی کے دیوتا کی طرح خاں صاحب نمودار ہوتے، پرستار والہانہ پن سے اُن کا استقبال کرتے، پھر مہدی حسن ہوتے اور اُن کی سپرہٹ غزلیں۔ یہ صرف پی ٹی وی تک محدود نہیں تھا، مہدی حسن کی یہ مقبولیت دنیا کے ہر اس ملک میں تھی جہاں جہاں اردو غزل، نغمے اور گیت سننے والے موجود تھے، انہوں نے کئی دہائیوں تک موسیقی پر راج کیا، ان گنت بین الاقوامی شوز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور داد کے ساتھ ساتھ پیسے بھی لئے جو اُن کا حق تھا، بے شمار اعزازات سے انہیں نوازا گیا اور آخری وقت میں اُن کے علاج معالجے کا تمام خرچہ بھی حکومت نے برداشت کیا اور امدادی چیک بھی دئیے۔ موسیقی کی تکنیک کے بارے میں مجھے اتنا ہی علم ہے جتنا مہدی حسن کو کالم نگاری کے بارے میں تھا۔ اچھی موسیقی سننے کا شوق البتہ ضرور ہے، اسی شوق میں خاں صاحب کو بھی سنا، کوئی شک نہیں کہ اُنہوں نے کئی لازوال غزلیں گائیں جو تمام میری پسندیدہ بھی ہیں، مگر کبھی بھی اُن کی آواز میں نوجوانوں والی کھنک نہیں رہی، ہمیشہ یوں لگا جیسے کوئی ادھیڑ عمر شخص گانا گا رہا ہے۔ فلمی غزل بہت صاف آواز میں گاتے تھے لیکن جب وہی غزل کسی لائیو پروگرام میں گاتے تو اتنی مرتبہ ایک مصرع دہراتے کہ بندہ لاہور سے امرتسر ہو کر آ جاتا۔ بعض اوقات تو الفاظ کی سمجھ بھی نہ آتی، غزلیں چونکہ معروف شعرا کی ہوتیں اور پہلے سے پڑھی ہوتیں تو اندازے سے پتا چلتا کہ کیا گایا گیا ہے۔ خدا میرے گناہ معاف کرے، جس قسم کے فقرے میں نے خاں صاحب کی شان میں لکھ ڈالے ہیں اس کے بعد میرے بعض بے حد عزیز دوست اور مہدی حسن کے پرستار مجھ سے خاصے ناراض ہو جائیں گے، چونکہ غزل گائیکی کی نزاکتیں اس کالم کا موضوع نہیں سو اِس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں اور دوسری بات چھیڑتے ہیں جو بظاہر غیر متعلقہ ہے۔
یہ پاکستان کی ایک سرکاری یونیورسٹی کا احوال ہے۔ مسلسل تیسرا برس ہے جب اس یونیورسٹی کو ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے کوئی موزوں امیدوار نہیں مل سکا۔ لگ بھگ 2500درخواستیں موصول ہوئیں جن میں پی ایچ ڈی کے لئے مشکل سے بیس اور ایم فل کے لیے سو امیدواروں کی چھانٹی کی گئی، لیکن اِن بیس یا سو کے بارے میں یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے شعبوں کے لئے مطلوبہ اہلیت یا لیاقت رکھتے ہیں، آخر میں بمشکل پانچ سات ہی بچے جنہیں رو پیٹ کر موزوں امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا گیا تاکہ یونیورسٹی یہ دعویٰ کرسکے کہ اس کے پاس پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلبا ہیں جبکہ اصولا ً پی ایچ ڈی کے لئے کم از کم دس اور ایم فل کے پانچ شعبوں کے لئے سو طلبا پر مشتمل کلاس منتخب کی جانی چاہیے۔ جن امیدواروں کی چھانٹی کی جاتی ہے وہ ملک کی مختلف جامعات کے سند یافتہ ہوتے ہیں، تحریری امتحان میں کم از کم مطلوبہ نمبر حاصل کرنے والے کو انٹرویو کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن انٹرویو کے دوران اِن کی قابلیت کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شعبے سے متعلق کسی بھی سوال کا ڈھنگ سے جواب نہیں دے پاتے اور ریسرچ کی الف بے انہیں معلوم نہیں ہوتی۔ جب ان میں سے کوئی پی ایچ ڈی یا ایم فل کے لئے منتخب ہو جاتا ہے تو بھی اُس کی حالت میں بہتری نہیں آتی، وہ انٹرنیٹ سے مواد ڈاؤن لوڈ کرنے یا ایک آدھ ایسی کتاب پڑھنے ’’جہا ں سے سب کچھ مل جائے‘‘ کے علاوہ کوئی کام کرنے پر وہ آمادہ نہیں ہوتے، ان میں سے اکثر تو ایک پیرا گراف ڈھنگ سے نہیں لکھ پاتے۔ یہ ’’محققین‘‘ فیس بک پر پیغامات بھیجتے ہیں کہ انہیں ان کے موضوع پر مواد حاصل کرنے کے لئے انٹرنیٹ لنک یا کتابوں کے نام بھیجے جائیں، لائبریری جانے کی زحمت نہیں کرتے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا معلم انہیں تحقیقاتی سوالوں کے جواب بھی رٹا دے اور انہیں خود کچھ نہ کرنا پڑے۔ نالائقوں کے اس ٹولے میں سے اگر کوئی معلم چاہے کہ کسی بدترین نالائق کو فیل کر دے تو اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے، ساتھی اساتذہ تک یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’بیچارے بچے‘‘ کو فیل نہ کرو ورنہ اس کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ گویا اس ’’بچے‘‘ کی اپنی کوئی ذمہ داری نہیں!
یہ دو باتیں جن کا بظاہر آپس میں کوئی تعلق نہیں، دو ایسے سوالات کو جنم دیتی ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا، کیا ہم غیر معمولی طور پر ٹیلنٹڈ قوم ہیں؟ دوسرا، کیا ہم بھکاری صفت لوگ ہیں؟ مہدی حسن بلاشبہ ایک غیر معمولی طور پر باصلاحیت فنکار تھے، مجھ ایسے کی کیا مجال کہ ان کے فن پر بحث کر سکے، تکلیف مگر مجھے یہ ہے کہ اُن کے ایک بیٹے نے بھارت سے درخواست کی ہے کہ اس کے والد کے مزار کی تعمیر میں مدد دے۔ شکر ہے کہ ایک غیور بھائی جو یہاں ٹریفک پولیس میں ہے، نے کہا ہے کہ وہ بھارتی امداد کے حق میں نہیں اور اپنے پیسوں سے اُن کا مزار بنوائے گا۔ دوسری طرف ہمارے ٹیلنٹ کا یہ حال ہے کہ ہم ڈھنگ کا پی ایچ ڈی پیدا نہیں کر سکتے اور باتیں کرتے ہیں امریکہ کو پچھاڑنے کی۔ کسی پاکستانی یونیورسٹی میں چلے جائیں اور وہاں کے طالب علموں سے دس منٹ تک کسی بھی مسئلے پر گفتگو کریں یا اُن کے سوالات سن لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا ’’گہرے پانیوں میں سفر کر رہے ہیں ہم‘‘۔ اُن کی تمام تر گفتگو سنی سنائی باتوں، ٹی وی ٹاک شوز یا سازشی تھیوریوں کی بنیاد پر ہوگی۔ کسی سے اگر یہ پوچھ لیں کہ آخری مرتبہ اُس نے نصاب کے علاوہ کسی کتاب کو کب ہاتھ لگایا تھا تو وہ بغلیں جھانکنے لگے گا مگر اس کے باوجود پورے تیقن کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی معاملات پر حتمی اور دو ٹوک رائے دے گا۔ ٹیلنٹ کی یہ انوکھی قسم ہے جو پاکستان میں پائی جاتی ہے۔
پاکستانی بھکاری نہیں، یہ ایک ایسی قوم ہے جو سال بھر میں اربوں روپے عطیہ اور خیرات کرتی ہے، ویسے ورلڈ چیریٹی انڈیکس میں ہمارا نام نہیں کیونکہ یہ صدقات زیادہ تر ان پیسوں سے کئے جاتے ہیں جو کھاتوں سے باہر رکھے جاتے ہیں، باالفاظ دیگر جن پر ٹیکس نہیں دیا جاتا۔
بہرکیف ہماری اربوں کی خیرات پر وہ لوگ کالک مل دیتے ہیں جنہیں ہر کام کے لئے حکومتی امداد چاہئے۔ اِسی طرح ہم اُتنے ہی ٹیلنٹڈ ہیں جتنی دنیا کی کوئی بھی اور قوم، کم نہ زیادہ، مگر کھوکھلے نعروں میں ہم نے اپنے اس ٹیلنٹ کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے، ان نعروں نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے سو محنت کی ضرورت نہیں۔ سو محنت کے بغیر جس قسم کے پی ایچ ڈی ہم پیدا کر رہے ہیں ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب یہ پانی سے کار چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔