• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں صاحب پھنس گئے ہیں اورماشاء اللہ بری طرح پھنس گئے ہیں ۔لیکن الحمدللہ میاں صاحب کو پھنسوانے کا کریڈٹ کسی اور کو نہیں خود میاں نوازشریف کو جاتاہے ۔ یہ توانہیں دھرنا بردار اپوزیشن نے اپنا کام کرنے نہیں دیا ورنہ تو میاں صاحب کب کا اپنے آپ کو پھنسواچکے ہوتے۔ اپنا ریکارڈ تو ان کا زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال حکومت کرنے کا ہے لیکن اب کی بار اپوزیشن ایسی دونمبر ملی کہ انہیں حسب عادت سیاسی خودکشی کرنے میںکافی دیر لگی۔ ماضی میں تو وہ پھر بھی سال دوسال گزرنے کے بعد جھگڑا مول لیتے تھے لیکن اس مرتبہ تو انہوں نے بالکل آغاز میں ہی کام شروع کردیا۔
میاں صاحب قسمت کے دھنی ہیں۔ یہ معجزے سے کم نہ تھا کہ ایک منتخب وزیراعظم فوج کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد زندہ بچ نکلے ۔ وہ نہ صرف بچ نکلے بلکہ پھر واپس سیاست میں بھی آئے ۔ ان کی خوش قسمتی تھی یا ماں کی دعائیں کہ قربانیاں کچھ اور لوگوں نے دیں ، سیاسی چالیں بے نظیر بھٹو نے چلیں تاہم منطقی نتیجے کے طور پر دوبارہ میاں نوازشریف کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی۔ انہوں نے تاثر بھی دیا تھا اور توقع بھی کی جارہی تھی کہ اب کی بار میاں صاحب ماضی کے مقابلے میں بدلے ہوئے حکمران ہوں گے ۔لیکن اب کی بار اقتدار میں آتے ہی وہ پہلے سے زیادہ نوازشریف بن گئے ۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے سیاسی جرائم کی نئی تاریخ مرتب کرنی شروع کی ۔ خود جمہوری راستے سے اقتدار میں آئے لیکن وہ پہلے سے زیادہ غیرجمہوری بن چکے تھے ۔ پارٹی معطل کردی، پارلیمنٹ کو بے وقعت کرنا شروع کیا ۔ جن لوگوں نے مشکل میں ساتھ دیا تھا ، ان کو ایک ایک کرکے دور کردیا اور خوشامدیوں یا پھر پرویز مشرف کی باقیات کو اپنے گرد جمع کیا۔ جمہوریت کے نام پر خاندانی حکومت قائم کردی ۔ تاہم سب سے بڑا جرم ان سے یہ سرزد ہوا کہ انہوں نے وفاق کو کمزور کیا۔ انہوں نے عملاً وسطی پنجاب کی حکومت قائم کردی ۔چھوٹے صوبوں کو برائے نام نمائندگی دی لیکن اہم وزارتیں اپنے رشتہ داروں یا پھر وسطی پنجاب کے تابعداروں کے پاس رکھ دیں ۔ دوسری طرف صدارت کے منصب پر ایسے تابعدار کو بٹھادیا کہ وہ وفاق کو کیا سنبھالتے خود اپنے آپ کو بھی سنبھال نہیں سکتے ۔ اسی طرح انہوں نے چاروں صوبوں میں گورنر کے مناصب بھی اسی نوع کے ضعیفوں اور تابعداروں کے حوالے کردئیے ۔ چھوٹے صوبوں کے عوام تو کیا ، ان صوبوں میں ان کی جماعت کے مسلم لیگی بھی احساس محرومی کے شکار یوںرہے کہ وہاں میاں صاحب کی عنایتوں کے مستحق ان کی پارٹی کے لوگ نہیں بلکہ سندھ میں پیپلز پارٹی، بلوچستان میں پختونخوا میپ اور پختونخوا میں جے یو آئی رہی ۔گویا ان کا اقتدار جن شاخوں پر استوار ہوا، خود انہی شاخوں کو کمزو رکرتے رہے ۔
میاں صاحب کا دوسرا لیکن شاید سب سے سنگین سیاسی جرم سی پیک جیسے منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا اور اس سے چھوٹے صوبوں کی محرومیوں کو مزید بڑھانے کا عمل ہے ۔ انہوں نے چینیوں سے بھی غلط بیانی کی اور اپنی قوم سے بھی ۔ اس تزویراتی منصوبوں کو ا خفا کے پردوں میں رکھ کر اس سے ذاتی، سیاسی اور خاندانی مفادات کے راستے نکالتے رہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جب اس کے قصے باہر آئیں گے تو لوگ پانامہ شانامہ سب کچھ بھول جائیں گے ۔
تیسرا بھیانک جرم میاں صاحب سے یہ سرزد ہوا کہ انہوں نے احتساب کا کوئی شفاف نظام نہیں بنایا ۔ انہوںنے پرویز مشرف کے بنائے ہوئے اور زرداری صاحب کے بگاڑے ہوئے نام نہاد احتسابی نظام کو برقرار رکھا۔ اسی طرح انہوں نے اسٹرکچرل اصلاحات پر توجہ دی اور نہ انتخابی اصلاحات پر ۔
میاں صاحب کے دور میں پاکستان دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نہایت نازک موڑ میں داخل ہوگیا لیکن انہوں نے اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا نہیں کیا۔ سب کچھ فوج کے سپرد کئے رکھا ۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہوسکا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تو جاری ہے لیکن انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔ فاٹا کے ادغام کے معاملے میں ان کی حکومت سنگین قومی جرم کا ارتکاب کرکے بلاجواز تعطل پیدا کررہی ہے ۔
ایک اورسنگین سیاسی جرم جس کی میاں صاحب کی حکومت مرتکب ہوئی ، وہ ناقص ٹیم کے ذریعے ناقص خارجہ پالیسی چلانے کا جرم ہے۔ ان کے دور میں دفتر خارجہ کی جو ابتر حالت رہی وہ کسی دور میں بھی نہیں رہی۔ چیلنجز بہت تھے لیکن کئی مواقع بھی ہاتھ آئے تاہم خارجہ محاذ پر میاں صاحب کی حکومت ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکی ۔
ایک اور شدید نقصان جو میاں صاحب کے دو رمیں ملک کو پہنچا ، وہ ریاستی اداروں کی خرابی ہے ۔ ان کے دور میں عدلیہ اپنا وہ مقام کھوچکی جو وکلا تحریک کے نتیجے میں اسے حاصل ہوا تھا ۔ اسی طرح ان کے دور میں میڈیا کا ادارہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ وہ بے وقعت بھی ہوگیا اور تقسیم بھی ۔ یہ وہ نقصان ہے جس کی تلافی شاید اب عشروں میں بھی نہ ہوسکے ۔
ایک لحاظ سے میاں صاحب اس معاملے میں بھی خوش قسمت رہے کہ ان کی ناقص طرز حکمرانی اور مذکورہ سنگین سیاسی جرائم پچھلے چار سالوں میں کبھی بھی سیاست اور میڈیا کے میدانوں میں موضوع بحث نہیں بنے اور ان کو آرم سے اپنی مرضی چلانے کا موقع ملتا رہا ۔ لیکن ایک سنگین ترین جرم جسے ان کے ام الجرائم کا نام دیا جاسکتا ہے ،میاں صاحب سے سرزد ہوا ، وہ فوج کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں سرزد ہوا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے لئے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ فوج اور اس کے اداروں کے ساتھ گزشتہ دس سالوں میں واقع ہونے والی خلیج کوختم کرتے ۔لیکن افسوس کہ وہ اس معاملے میںماضی کو بھلا نہیں سکے جس کی وجہ سے فریق ثانی کا ذہن بھی ان کے بارے میں صاف نہیں ہوسکا۔ انہوںنے فوج کے ساتھ بطور ادارہ تعلقات بہتر بنانے کی بجائے افراد کو اپنے ساتھ ملانے کی پالیسی اپنائے رکھی جو فوج کے معاملے میں ہمیشہ بیک فائر کرتی ہے ۔ دوسری طرف مناسب تیاری اور اخلاقی برتری کے بغیر انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا۔ چنانچہ جواب میں انہیں کبھی دھرنوں اور کبھی لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا۔ سول ملٹری تعلقات کی اس خرابی اور تنائو کی وجہ سے نہ مناسب خارجہ پالیسی بن سکی ، نہ افغانستان اور ہندوستان کے محاذوں ٖپر مناسب پیش رفت ہوسکی اور نہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ہوسکا۔ میاں صاحب، پرویز مشرف کو سزا بھی نہ دلواسکے اور بادل ناخواستہ ان کو جانے کا راستہ دے دیا ۔ چنانچہ ان کے ذہن پر یہ خفت بھی سوار ہوگئی۔ پھر وہ دھرنوں کا حساب لے سکے اور نہ تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کی ہمت کرسکے لیکن وہ معاملہ بھی ان کے ذہن پر سوار ہوگیا۔ چنانچہ یہ ساری چیزیں فوج کے ساتھ ان کے رویے میں جھلکتی رہیںجس کی وجہ سے عسکری اداروں کے اندر بھی ا ن کے خلاف غبار جمع ہونے لگا۔ یہ کشمکش کبھی جیو کے معاملے میں ظاہر ہوتی رہی ، کبھی ڈان لیکس کی صورت میں اور کبھی ٹویٹس کی شکل میں۔ کبھی ایک فریق جیتتا رہا اور کبھی دوسرا فریق۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ مذکورہ قومی جرائم کے معاملے پر کبھی عسکری ادارے میاں صاحب کی راہ میں مزاحم نہیں ہوئے لیکن جب خود ان سے متعلق ایشوز آئے تو وہ مزاحمت کرتے رہے ۔ دوسری طرف میاں صاحب نے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات پر توکبھی فوج کو چیلنج نہیں کیا لیکن کبھی فاطمی کے معاملے پر اور کبھی ٹویٹ جیسے ذاتی معاملات پر وہ چیلنج کرتے رہے۔ یہ ام الجرائم اب ان کے گلے پڑ گیا ہے اور نتیجتاً وہ آج اس مقام پر کھڑے ہیں، کوئی اور تو کیا میاں شہباز شریف کی اولاد بھی ان کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آتی۔ اب کی بار انہیں پارلیمنٹ بچاسکتی ہے اور نہ میڈیا۔ اس بار انہیں یا اللہ کی طرف سے کوئی معجزہ بچاسکتا ہے یا پھر چین اور روس وغیرہ کی مداخلت کام آسکتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ بچنا بھی عارضی بچنا ہوگا کیونکہ اقتدار رہے بھی تو عزت تو نہیں رہی۔ حیران ہوں وہ خواجہ آصف اور احسن اقبال وغیرہ کہاں غائب ہیں۔ ابھی توبارہ اکتوبر میں کچھ وقت ہے۔

تازہ ترین