• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2009 ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں ہونے والے حملے سے لے کر 2017 ء میں اوول میں ٹیم کی حیران کن جیت تک پاکستان کرکٹ نے ایک طویل اور تکلیف دہ سفر طے کیا ہے ۔ تحفظ کے خدشے کو جواز بناتے ہوئے غیر ملکی کھلاڑیوں کی آمدکا سلسلہ موقوف ہوگیا، ڈومیسٹک کرکٹ تباہ ہوگئی، نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش کے پروگرامز ترک کردئیے گئے ، فنڈز کی کمی کی وجہ سے ٹریننگ اکیڈمیاں بند ہوگئیں۔ دنیا میں کرکٹ کے سب سے پرکشش اور سنسنی خیز مقابلے، پاک بھارت کرکٹ سیریز، سیاست کی نذر ہوگئے ، اور بھارت نے پاکستان کے ساتھ کسی نیوٹرل ملک میں جاکر کھیلنے سے بھی انکار کردیا۔دیگر ٹیموں کے ساتھ پاکستان کی ہوم سیریز دبئی اور شارجہ میں منتقل کرنا پڑیں۔ وہاں کی بے جان پچوں پر خالی اسٹیڈیمز میں ہونے والے میچوں پر بھاری اخراجات اٹھتے تھے ۔ اس سے بھی بدترین ، 20/20 کرکٹ فارمیٹ کی بے پناہ مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک نے ڈومیسٹک لیگز شروع کردیں، لیکن پاکستان ان سے محروم رہا۔ دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز پیشہ ور منیجرز اور مالیاتی امور کے ماہرین بہت کامیابی سے چلارہے تھے لیکن پی سی بی کے معاملات سیاست دانوں اور سفارشی بیوروکریٹس کے ہاتھوں انتہائی ابتری کا شکار تھے ۔ 2013ء میں پی سی بی کو عدالت میں چلنے والے کیسزاور مفاد پرستوں کی رسہ کشی نے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔
خداکا شکر ہے کہ 2014ء میں کرکٹ بورڈ کے معاملات درست کرنے اور کرکٹ کی بحالی کے لئے نئے اقدامات اٹھائے گئے، جیسا کہ بورڈ آف گورنرز اور چیئرمین کے لئے شفاف انتخابات کا انعقاد اور قانون سازی۔ مینجمنٹ میں پیشہ ور ماہرین کو شامل کرنے اور تنظیم کو عالمی معیار پر چلانے کی کوشش کی گئی ۔ ان کاوشوں کے ٹھوس اور جاندار نتائج سب کے سامنے ہیں۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان اس سال کے آغاز میں دنیا کی نمبر ون ٹیسٹ رینکنگ ٹیم بن گیا، اور گزشتہ ہفتے پاکستان چیمپئنز کا چیمپئن بن گیا جب کہ اس کی ٹیم میں ایک بھی سپراسٹار شامل نہ تھا ۔
کامیابی کا یہ سفر 2016 ء میں پاکستان سپر لیگ کے انعقاد سے شروع ہوا۔ کئی سالوں سے پی سی بی بھی انگلینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور بھارت کی طرز پر T20لیگ کے انعقادکی کوشش کررہا تھا۔لیکن نااہلی ، سرکاری افسروں کی روایتی سستی اور بدعنوانی اس کے راستے میں کٹھن پہاڑ کی مانند تھی ۔ مارکیٹنگ کی مہارت کے فقدان کی وجہ سے پاکستان اسے outsource بھی نہیں کرسکتا تھا، اور نہ ہی جانتا تھا کہ خود اپنے وسائل سے ایسی لیگ کس طرح شروع کرے ۔ اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اگر ایسی لیگ اپنی سرزمین کی بجائے یواے ای میں منعقد کی گئی تو اس کا آئوٹ پٹ کیا ہوگا۔ درحقیقت جب پی سی بی کے نئے بورڈ آف گورنرز نے اس منصوبے کے لئے گرین سگنل دیا تو اس کی کامیابی پر شک کرنے والوں کی کمی نہ تھی۔ بلکہ بہت سے دل ہی دل میں یہ خواہش بھی رکھتے تھے کہ یہ نئی انتظامیہ کے لئے واٹر لو ثابت ہو۔ لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے ۔ پی ایس ایل (پاکستان سپر لیگ ) نے پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کو ابھرنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے مسابقت کا موقع اور ماحول فراہم کیا۔ جن نوجوان کھلاڑیوں نے چیمپئنز ٹرافی جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، وہ پی ایس ایل کی ہی پیداوار ہیں۔ دیگر ٹیموں کے خلاف دبائو میں کھیلنے کے تجربے کے علاوہ اُنہیں دنیائے کرکٹ کے عظیم ستاروں جیسا کہ ویوین رچرڈز، برینڈن میک کلم، وسیم اکرم، پیٹرسن، کرس جورڈن، ڈیرن سمی اور کمار سنگاکارا سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
تاہم یہ سفر ابھی مکمل نہیں ہوا ہے ۔ اس کے اگلے مرحلے میں پی ایس ایل کو پاکستان لانا اور اپنے اسٹیڈیمز کو آباد کرنا ہے ۔ اس سال لاہور میں فائنل کا انعقاد ایک بہت بڑی کامیابی تھی ۔ چھٹی فرنچائز کی فروخت ایک بہت بڑی مالیاتی پیش رفت ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب مزید عالمی کھلاڑی اس میں شرکت کریں گے ، زیاد ہ میچ ہوں گے ۔ 2018 ء میں لاہور اور کراچی میں آٹھ یا نو میچز منعقد کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہے ۔ یہ میچز نئے کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کا موقع فراہم کریں گے ۔ ستمبر میں آئی سی سی ورلڈ ٹیم کی لاہور آمد ایک اہم ترین کامیابی ہوگی ۔
آہستہ آہستہ ، لیکن یقینی طور پر پاکستان میں کرکٹ کی بھرپور بحالی کے لئے مرحلہ وار کام جاری ہے ۔ پی سی بی کراچی اور ملتان میں عالمی معیار کے ٹریننگ سینٹرز تیار کررہی ہے ۔ کراچی اور لاہور کے اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کرنے کے لئے فنڈز کی منظوری دی جارہی ہے ۔ کلبوں اور اسکولوں کی سطح پر کرکٹ کی ترقی کے لئے پروگرام شروع کردیا گیا ہے ۔ علاقائی کرکٹ کی ایسوسی ایشنز کو بھی مقامی اسپانسرز تلاش کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے تاکہ کھیل میں سرمایہ کاری کی جاسکے ۔ پی سی بی حاصل کردہ سرمایہ کاری کے مساوی گرانٹ جاری کرے گا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کے معیار کو بڑھانے کے لئے ٹیموں کی تعداد کم کردی گئی ہے ۔ اب اُنہیں آگے آنے کے لئے سخت مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ڈومیسٹک T20 فارمیٹ کو پی ایس ایل کے ڈرافٹ کردہ ماڈل کے مطابق بنایا جارہا ہے ۔اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے ۔ عالمی معیار کی وکٹیں تیار کرنے کے لئے غیر ملکی گرائونڈ ماہرین کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ مختصر یہ کہ کھیل میں مزید رقم، مزید پیشہ ور کارکردگی اور مزید توانائی انوسٹ کی جارہی ہے تاکہ کرکٹ سے لگائو رکھنے والے اس ملک میں کرکٹ کو بھرپور فروغ مل سکے ۔
بے شک اس سفر میں نشیب وفراز آئیں گے ۔ پاکستان ابھی بھی مختصر دورانیے کی کرکٹ رینکنگ میں بہت نیچے ہے ۔ ٹیسٹ کرکٹ کے عظیم ستارے ، جیسا کہ مصباح الحق اور یونس خان جاچکے ہیں، اور ان کا خلا پورا کرنا آسان نہیں۔ لیکن اس وقت ہمارے سامنے باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کی ایک کھیپ موجود ہے ۔ ہم نے ان جوہرپاروں کو تراشنا اور عالمی سطح پر متعارف کرانا ہے ۔ یہ وہ شاہین ہیں جنہیں پی سی بی نے عالمی افق پر پرواز کے لئے بال وپر دینے ہیں۔

تازہ ترین