• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوول کے کرکٹ اسٹیڈیم میں بھارت کو نہ بھلانے والی شکست فاش دے کر پاکستانیوں نے عید سے پہلے برسوں یاد رکھی جانے والی عظیم قومی خوشی تو منالی، اب ان شاء اللہ عید کی خوشی بھی منائیں گے، اس کے بعد دل تھام لیں۔
پاناما کیس کے حوالے سے ملکی عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ آنے کو ہے، جس میں شریف فیملی کے اقتدار کی بقا یا فنا سے کہیں بالا فیصلہ ہونے کو ہے کہ ’’اقبال کے خواب، قائد کی بے مثال جہد کا ثمر اور مسلمانان ہند کی اجتماعی تمنا اور عملی تائید و حمایت کا حاصل پاکستان، اپنے نافذ آئین کو مکمل اختیار کر کے اور قانون کے یکساں نفاذ سے اپنے قیام کے مقاصد کے مطابق جمہوری اور فلاحی جدید اسلامی ریاست بنے گا؟ یا بیمار سول اور آمرانہ ملٹری ادوار کا تشکیل دیا گیا اسٹیٹس کو (نظام بد) ہی اس پر بدستور مسلط رہے گا؟‘‘
بلاشبہ سیاست حصول اقتدار کا ہی کھیل ہے لیکن دنیا بھر کی جملہ تواریخ (خصوصاً جدید) کے علاوہ خود پاکستان کی اپنی 70سالہ تاریخ نے اس امر کی حتمی تصدیق کردی ہے کہ ’’آئین و قانون کی حقیقی معنوں میں بالادستی اور انصاف پر مبنی یکساں نفاذ، حاصل اقتدار اور اس کی طوالت اور اس کے در پے رہنے کی تگ و دو سے بڑھ کر کہیں زیادہ مقدم اورنتیجہ خیز انسانی اجتماعی عمل ہے۔ اول الذکر بنیادی طور پر ذاتی و گروہی اغراض کا کھیل ہے تو آخر الذکر ٹیم ورک برائے فلاح انسانیت ہے‘‘۔
پاناما کیس کی بے پناہ اہمیت اور حساسیت بلا کسی امتیاز تمام پاکستانیوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنی اپنی پسند و ناپسند کے سیاسی دائروں سے باہر نکل کر اپنی رائے اور تائید و حمایت کی حد تک پاکستان کو حقیقی معنوں میں پاکستان بنانے کے لئے مملکت میں ’’آئین کے کامل اطلاق اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘ کی سوچ اور اپروچ اختیار کرتے ہوئے اپنے زندہ انسانی ضمیر اور پاکستان سے حقیقی محبت کی صراط مستقیم اختیار کریں۔
محتاط اندازہ ہے یا خدشہ کہ بڑے بڑے محترم بھی فقیر کے اس ’’فتوے‘‘ کا برا مان جائیں گے کہ ’’آج مغرب کے جمہوری معاشروں کے ہر ہر شعبے بشمول گورننس میں کتنے ہی اسلامی اسباق و اقدار کا غلبہ ہے۔ اسی پر یہ جمہوری ، فلاحی اورمہذب مانے جاتے ہیں۔ اس کا کھلا راز و اقدار کا غلبہ ہے۔ اسی پر یہ جمہوری، فلاحی اور مہذب مانے جاتے ہیں۔ اس کا کھلا راز ان کے جمہوری آئین کا مکمل غلبہ اور تمام شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق ہے، بلاشبہ یہ اپنے دائرے میں حکمرانوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ تبھی تو ان معاشروں میں اغراض کے مارے حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا آسان تر ہوگیا ہے اور معمولی ہیرا پھیریوں پر کڑا فوری اور بے رحمانہ احتساب عام ہے۔ ریاست روٹی کپڑے اور مکان سے آگےعلاج معالجے اور تعلیم کی ضامن ہے۔ ان کے دریائوں کے کنارے پر بھی کوئی کتا بھوکا نظر نہیں آتا۔ بچے، عورت اور بزرگ کا احترام مسلمہ ہے۔ ایک حد تک تعلیم ہر مردوزن کے لئے لازم اور مقدس حاکم سے زیادہ محترم۔ برائیوں کی ماں جھوٹ سے ممکنہ پرہیز بچے سے لے کر گھاگ بزرگ تک کرتے ہیں یہ سب کچھ اسلامی نہیں‘۔ ہاں ان ہی معاشروں میں پائی جانے والی شیطانیت بھی کوئی کم نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی مکاری کی عکاس اور اسی کی کوکھ سے پیدا ہوئی۔ (اس پر بھی کبھی ’’آئین نو‘‘ میں بات ہو جائے گی) فوری سبق یہ ہی ہے کہ فقط مغرب کی اچھائیوں پر رشک ہی نہ کیا جائے اور ان کے غلبے کا رونا ہی نہ رویا جائے سمجھا جائے کہ ان کے حصولات کا راز کیا ہے، جو کھلا اور ناقابل اختلاف ہے۔ فقط ’’آئین کا مذہبی حد تک مکمل اطلاق اور تمام شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق‘‘ یہ سیاست ہیں، صراط مستقیم ہے اور اس پر چلنا عبادت۔
خدارا! پاناما کیس کو سیاسی نہ سمجھا جائے۔ جاری ’’عشرہ جمہوریت‘‘ نے ملک کو جمہوریت اور استحکام دیا ہو یا نہ دیا ہو۔ وکلا کی عوامی اور ملک گیر بن جانے والی تحریک آزاد عدلیہ (2007-08)پاکستان کو اتنا ضرور دے گی کہ درست ہے کہ (اسٹیٹس کو میں بننے والی پارلیمان نے شدید مایوس کیا کہ ان کی نااہلیت کے باعث ان کا غلبہ نہیں ہوا) تاہم عدلیہ میں اتنی تبدیلی ضرور آئی کہ بالائی سطح پر انتظامیہ سے مکمل نہیں تو اطمینان بخش حد تک اس کے اثر بد سے آزاد ہونے لگیں اور ہورہی ہیں۔ معاشرہ ان پر اور یہ معاشرے پر خصوصاً حکومت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے ماضی کی طرح فیصلے خلاف آئین و قانون کوئی آسان نہیں رہے۔میڈیا، مکمل نہیں تو گزارے سے کہیں آگے کی حاصل آزادی کے ساتھ اپنے نئے کردار کا تعین کر چکا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی میڈیا پر اثر انداز ہونے والی تھیوری آف پولیٹکل اکانومی (آف میڈیا) بھی پاکستان کے آزاد میڈیا کو بھی متاثر کررہی ہے جس کے مطابق جمہوری معاشرے میں بھی طاقت ور طبقات سرمائے سے میڈیا کو متاثر کرتے ہیں لیکن پاکستان میں اس کا کردار پھر بھی تاریخ ساز بن چکا ہے۔ اس پر بھی جلد ’’آئین نو‘‘ میں بات ہوگی۔
پاناما کیس کی حد تک ہمارا قومی رویہ کیا ہونا چاہئے؟ اس سوال پر خاکسار کی ان پٹ تو مندرجہ بالا ہی ہے۔ خاکسار کا ہدف بااعتماد ماہرین سے مل کر اسے شیئرڈ بنانا ہے۔ غم روزگاراں کی بندشوں، وقت کی کمی اور تیزی سے بدلتی صورتحال میں جتنا ممکن ہوا، ناچیز یہ ہدف ’’آئین نو‘‘ میں پورا کرنے کی کوشش کرے گا کہ پاناما کیس کو سیاسی رنگ، غیر پیشہ واریت اور دھماچوکڑی سے محفوظ رکھا جائے۔ابتدائی کاوش اتنی ہی ہے کہ ملک کے معروف، سنجیدہ اور اپنی پیشہ وریت پر یکتا ماہر قانون جناب ایس ایم ظفر سے چند بنیادی سوال کر کے جو رہنمائی لی، اس کا لب لباب حاضر خدمت ہے (ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا)
....oفراہمی و انصاف میں یہی بہترین راہ ہے کہ جج صاحبان اپنے فیصلے سے پہچانے جائیں۔ دنیا میں یہ اپروچ اس وقت تبدیل ہونے لگی جب جج صاحبان کی طرف سے ’’سوموٹو‘‘ کے اختیار کا استعمال بڑھ گیا اور ممنوعہ شعبوں میں بھی ہونے لگا۔ اکثر معاشروں میں ایسا گورننس کی خرابیوں کے باعث ہوا، تب اعلیٰ عدالتوں نے یہ فریضہ بھی سنبھال لیا یا انہیںسنبھالنا پڑا۔
....oجب سیاسی مقدمات عدالتوں میں آنے لگے تو سیاست دانوں کے ابلاغ کے رسپانس میں ججز کی زبان بھی متاثر ہوئی، وہ بھی کچھ سیاسی ہونے لگی، حالانکہ جج صاحبان سیاست سے اتنے واقف نہیں ہوتے جتنا وہ سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں دوران سماعت سیاسی و حکومتی تاریخ حتیٰ کہ قدیم بادشاہوں کی تاریخ کے حوالے دینے کی روایت ہے لیکن ادبی لٹریچر سے نہیں۔
....oپاناما کیس کے دوران جس انداز کا سیاسی ابلاغ ہوا اس کے رسپانس میں عدلیہ کے کمینٹس سے تشویش اور ابہام کا پہلو نکلا۔ یہاں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے جسے صورتحال اور موضوع کے مطابق ذمہ دارانہ ہونا چاہئے۔ جج صاحبان کی بہترین رہنمائی مولانا روم کی کہاوت سے ہوتی ہے کہ ’’شطرنج کے کھلاڑی کی خاموشی ضروری ہے اس کی چال بتائے کہ اس نے کیا کیا ہے۔
....oتمام تر احترام کے ساتھ ججز صاحبان سے مکمل خاموشی کی گزارش ہے اور سیاسی نوعیت کی ’’متوازی عدالتوں‘‘ کی بھی سختی سے حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔
....پاناما کیس کے عبوری فیصلے میں دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کی قانونی پوزیشن رائے کی ہے۔ اب فیصلہ باقی 3 جج صاحبان کا ہی ہوگا جنہوں نے مزید تفتیش کی ضرورت سمجھی۔
....oفیصلہ کیا ہوگا؟ مفروضوں پر جواب نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم جے آئی ٹی کی رپورٹس پر جج صاحبان کا کوئی عدم اطمینان کا اظہار نہ ہونا اور حکومت کی انتخابی تیاریوں سے یہ اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ خود بھی حکومت سمجھ رہی ہے کہ کیا ہوگا۔ انتظار ہی کرنا چاہئے۔

تازہ ترین