• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق برطانوی فوجی کاجیل میں قبول اسلام،پہلی مرتبہ نماز کی ادائیگی

لندن( نیوز ڈیسک) محمدامین برطانوی فوج میں خدمات انجام دے رہاتھا اس دوران اپنی بعض غلطیوں کی وجہ سے اسے جیل کی ہوا کھانا پڑی، محمد امین کاکہناہے کہ مجھے اپنی غلطیوں کی وجہ سے جیل جانا پڑا تھا اس میں معاشرے یا میرے والدین اوردوستوں کاکوئی دخل نہیں تھا میں طویل عرصے سے قید میں تھا اس دوران میرے ایک ساتھی ڈاز نے اسلام قبول کرلیا،قبول اسلام کے بعد اس کا رویہ یکسر تبدیل ہوگیا اس کی درشتگی کی جگہ شائستگی نے لے لی،اس دوران میں نے اس میں اور جیل میں مسلمان ہوجانے والے قیدیوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتے ہوئے دیکھیں ، اس طرح مجھے بھی مسلمانوں کے طرز زندگی کے بارے میں جاننے کا شوق اور جستجو پیداہوئی ،میرے دوست نے مجھے اپنے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرنےکی دعوت دی لیکن میں نے انکار کردیا لیکن کئی ہفتوں کی اس کی کوششوں کے بعد میں اس کے ساتھ نماز میں شریک ہونے پر تیار ہوگیا یہاں جیل میں مسلمانوں کی نماز کی ادائیگی کیلئے جیل خانے کی پشت پر واقع لائبریری میں ایک جگہ وقف کردی گئی تھی لیکن اس کمرے میں جاتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنے گھر میں جارہاہوںجب میں کمرے میں پہنچا تو وہاں موجود لوگوں نے مجھے گلے لگایا اورمجھ سے پوچھاکہ کیا میں اسلام قبول کررہاہوں مجھے ایسا لگا جیسے کہ میں ہمیشہ سے ان کا ساتھی رہاہوں ان ہی میں سے ہوں اور جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو میری گردن کے بال کھڑے ہوگئے اور جب حی الاصلوٰۃ کی آواز سنائی دی تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ میرے لئے ہی ہےامام نے نماز شروع کرائی وہ جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ میری سمجھ سے بالاتھا لیکن یہ الفاظ میرے لئے اجنبی ہونے کے باوجود مجھے حقیقت معلوم ہورہے تھےاس تجربے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ میں نے اللہ کوپالیا ہے اور مسجد سے نکلتے ہوئے ایسا محسوس ہورہاتھاکہ میں بالکل ہی تبدیل ہوچکا ہوں،میری قبول اسلام کے بعد میرے دوست نے مجھے وضو کرنا سکھایا اور اس رات میں نے اپنی کوٹھری میں پہلی مرتبہ تنہا نماز ادا کی اوراس کے بعد میں نے مڑکر پیچھے نہیں دیکھا جیل سے رہائی کے بعد اس کا تعارف ڈیوس بری کے نومسلموں سے کرایاگیا جو کہ اس کے مطابق جیل سے رہائی اور بیرونی دنیا میں آمدکی عبوری مدت کیلئے اس کیلئے انتہائی مددگار ثابت ہوئے،یہ بالکل ہی غیر جانبدارانہ ماحول تھا جہاں ہر ایک میری مدد کرنے اور میری ضروریات پوری کرنے کو تیار تھا،میں یہاں اپنے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ گھل مل سکتا تھا اور کمیونٹی کے دوسرے ارکان کے ساتھ دوستی کرسکتاتھامحمد امین نے اب شادی کرلی ہے اور ایک بچی کاباپ ہے اب اس نے جیل خانے میں قبول اسلام کرنے والوں کی مدد اور اعانت کیلئے ایک پراجیکٹ شروع کررکھا ہے محمد امین کاکہناہے کہ جیل خانے میں قبول اسلام کی صورت میںنسل پرستی کو شہ ملتی ہے اور جیل میں قبول اسلام کے بعد عام قیدی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کے مقابلے میں زیادہ ا س نسل پرستی کاشکار بنتے ہیں ۔محمد امین کاکہناہے کہ میں نے اپنے ایک ساتھی دائود کے ساتھ مل کر جیل خانے کایہ پروجیکٹ شروع کیاہے جس کا مقصد جیل خانوںمیں اسلام قبول کرنے کی معاونت اور مدد کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

تازہ ترین