• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید ظلم و ستم کا شکار معصوموں کے نام حرف بہ حرف …رخسانہ رخشی، لندن

اپنے پاکیزہ جذبوں کو گواہ بناکر سوچیے کہ عید کی یہ خوشی کب پوری ہوتی ہے یا کب دل سے عید منائی جاتی ہے۔ ہم عید کے دن بھول جاتے ہیں تمام دن کے دکھ اور دکھی لوگ۔ حالانکہ آخری عشرے میں ہم لوگ اپنی دعائوں کی قبولیت کے منتظر ہوتے ہیں اور اپنے لیے گڑگڑا کے اللہ سے اپنی بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ خیر بخشنے والی خدا کی ذات ہے، مگر اگر دنیا کے پریشان حال لوگوں کے لیے دل سے دعا کی جائے ان کی بہتری اور سلامتی کی دل سے دعا کی تو شاید ہمارے نیک جذبے کے تحت وہ دعائیں اپنے ہاتھ اٹھانے والوں کے لیے بہتر طریقے سے قبولیت کا درجہ پالیں۔ حالانکہ بہت سے ہاتھ اٹھتے ہی اس لیے ہیں کہ ہم کسی اور کے لیے دعا مانگیں گے تو مطلب ہماری ہی دعا پوری ہوگی۔
ہر کوئی چاند رات سے اپنے بہت پیاروں کو ذہن میں لانا شروع ہوجاتا ہے کہ کس پیارے کے نام یہ عید کریں وہ جو دل کی دھڑکنوں اور ہاتھوں کی لکیروں میں ہے۔ مگر حالات کی زد میں آئے معصوم لوگوں کے نام کوئی عید نہیں کی جاتی۔ مگر ہم اپنی یہ عید ذہنی و دلی طور پر جذباتی لگائو اور وابستگی کے ساتھ ان بارود میں جھلسی بستیوں کے نام کریں گے جہاں انسان تڑپتے ہیں، جہاں احساس اور انسانیت تڑپتی ہے، انسانوں کی حالت زار پر، جہاں انسانیت واقعی تڑپتی ہے، ظلم و بربریت کی طنات و عنان کے بے قابو ہوتے حالات پر۔ انسانیت مر جاتی ہے کہ اس ظلم کے نظام کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں۔ کیا مسلم بستیوں میں عید کے عند الوقت پر بھی ہم امن نہ دیکھ پائیں گے، کیا فلسطین، عراق اور شام و کشمیر کی کوئی بستی ہوگی جہاں دکھ کے الائو مدھم ہوں گے، جہاں فرقے سے زیادہ خدا اور رسولﷺ کے بھائی چارے والے پیغام کو اہمیت دی جائے گی، جہاں یہود و کفار اپنی مسلم دشمنی اور کینہ پروری اور بغض سے باز رہیں گے، کیا عید کے روز ہم بچا پائیں گے ان معصوم بچوں، جواں مرد و زن اور بوڑھوں کو جو اپنوں اور غیروں کے دھوکے و دغا بازی اور ظلم و ستم سے باز رہیں گے۔ کشمیر، فلسطین، شام و عراق میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ مت بھولیے عیدگاہ کی بجائے بستیاں بارود گاہ میں تبدیل ہوتی، جہاں عید کے دوگانہ (دو رکعت نماز) نہیں جنازے پڑھائے جاتے ہیں۔ مسلم دنیا کی اجڑتی بگڑتی بستیوں کے بچوں کو ہم کیا عیدی دیں گے، عید کے روز کہ وہ خرچ کریں، کیا نذرانہ دیں گے کہ وہ عقیدت سے سرشار ہوجائیں۔ ہم امن کے خطوں میں رہنے والے محسوس کرپائیں گے، دیکھ پائیں گے کہ وہ کیسے خود کو خرچ کریں گے۔ جان کا نذرانہ دے کر کہ امن وہاں نہ ہوگا، ظالموں، ستم گروں کو احساس ہوگا کہ آج کے دن انہیں ان کی خوشیاں بخش دیں وہ تو ظالم و جابر ہیں مگر ہم بھی کم نہیں کہ اپنی خوشیوں میں محو ہوکے ہم بھی ستم گزیدائوں کو بھول جاتے ہیں۔ کسی بھی حادثے پر ہلکا سا افسوس کرکے بھول جاتے ہیں کہ کہیں کسی اجڑے چمن کے پھول بھی تڑپ رہے ہیں۔فلسطین، کشمیر، عراق اور اب شام بھی امن و سکون کو ترس گئے ہیں۔ وہ بھول چکے ہیں کہ سلامتی کے ساتھ عید کیسے اور کب منائی تھی۔ ایک طرف فرقہ بندی ہے کہ وہاں آپس کی کینہ پروری نے جان کھا رکھی ہے، دوسری جانب صیہونی قاتل وحشی یہود و کفار ہیں۔ جنہوں نے ایک عرصے سے مسلم دشمنی پروان چڑھا رکھی ہے۔ فلسطین، کشمیر اور عراق و شام میں مسلمان عید سے گلے لگنے کی بجائے لاشوں سے لپٹ کے روتے ہیں۔ وہاں مسلمان ایک دوسرے کے گھر میں عید ملنے نہیں جاتے، بلکہ تعزیت کے لیے جاتے ہیں۔ ہر بے امن خطوں میں متاثرین کو عید پر بھی خوشی تو کیا کسی وحشت و بربریت کا خوف رہتا ہے اور ہم انہیں اس حالت میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی کہ ایک خدا اور رسولﷺ کے ماننے والے، ایک اخوت و بھائی چارے جیسی ہدایت پر چلنے والے کچھ کفار کے دوست ہیں، کچھ یہود کے دوست ہیں۔ ان ظلم کے شکار لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عرب ممالک کی کوئی ریاست ایسی نہیں جو ان کے خلاف آواز اٹھاسکے پرسان حال نہیں۔ عرب ممالک کی کوئی ریاست ایسی نہیں جو ان کے خلاف آواز اٹھا سکے، بس زبانی کلامی ہمدردی اور مدد کی صورت میں اشیائے خوردونوش کا سامان اور تن ڈھانپنے کو تھوڑے سے کپڑوں کے بنڈل، کیا بھائی چارہ اور ہمدردی کے محتاج یہ صرف ان سوغاتوں تک ہیں، کیا انہیں آزاد نہیں کرانا ان دبے ہوئے پست لوگوں کو باہر نہیں نکالنا۔ ان کے دل پہ کیا گزرتی ہوگی کہ ایک ہی راہ مستقیم پر چلنے والے ایک ہی عبادت و ہدایت کے ماننے والے مگر مذہبی خوشیوں کے تہوار منانے کے ڈھنگ جدا کچھ خوشیوں پر بھی غمناک صورت حال کا شکار رہتے ہیں اور کچھ خوشیوں کے جھولوں میں جھولتے رہتے ہیں۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی رمضان سے علاوہ بھی جاری رہتی ہے، مگر رمضان میں شیطانی طاقتیں زیادہ زور و شور سے شیطانیت دکھاتی ہیں۔ اسی طرح ہم بھی خاص موقعوں پر ہی ان سے اظہار یکجہتی کا آغاز کرتے ہیں، ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو تب مذمت کرتے ہیں، اس سے علاوہ کچھ جگہات پر ریلیاں نکال لیتے ہیں۔ جلوس و احتجاج کرلیتے ہیں، مگر کوئی آواز اوپر تک نہیں پہنچتی یا بڑے بڑے سربراہوں کے کرتا دھرتائوں نے نامی گرامی طاقتوں کو کبھی للکارا ہو یا ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کسی نے انہیں مسلم یکجہتی ظاہر کرائی ہو حالانکہ اسرائیلی جارحیت کے کئی ایسے واقعات ہیں دل ہلا دینے والے جب انہوں نے نہتے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اسی طرح کشمیر میں کافروں نے ادھم مچا رکھی ہے، عراق اور شام کی بہت بری خانہ جنگی نے کئی معصوم بچوں اور بڑوں کی جان لے لی ہے، ایسے حالات میں ہم کون سی خوشیاں ان متاثرہ مسلمانوں سے الگ ہوکر منائیں کیوں اپنی خوشیاں ان کے غم بانٹنے سے بدل کر دیکھیں اور ہماری عید بھی ان کے دکھوں کے ساتھ سنجیدہ رنگ میں گزرے تو دل کو سکون اور ضمیر بھی مطمئن ہوگا، ان متاثرہ مسلمان بھائیوں کے نام۔ یہ عید ہے ہماری، غم کے ماروں کے لیے، درد کا سامان بنا شام کی گود میں وہ شعلہ نما عید کا چاند اللہ کرے کہ تم کو مبارک ہو روز عید، ہر رات و نشاط کا ساماں لیے ہوئے، وفا کا سندیس لے کر اترے تمہارے آنگن میں، گواہ رفاقتوں کا محبتوں کا بن کر ہلال عید

تازہ ترین