• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کی تبدیلی…واہ رے تبدیلی تحریر:واٹسن سلیم گِل…ایمسٹرڈیم

پاکستان ناقابل یقین طور پر چیمپئن ٹرافی جیت گیا ۔مجھ سمیت سارا پاکستان چیمپئینز ٹرافی جیتنے کی خوشی منا رہا تھا میں اپنی فیملی کے ساتھ اتوار کی تمام ترین مصروفیات کو ترک کر کے میچ دیکھ رہا تھا کھیل کے آخری حصہ میں کچھ غیر پاکستانی مہمان بھی موجود تھے۔ پاکستان کی جیت کی خوشی میں ہم سب سمیت میری بیٹی سارہ بہت انجوئے کر رہی تھی۔ میں چینل تبدیل کر کر کے دیکھ رہا تھا کہ انڈیا کے سپورٹر میدان چھوڑ کر تیزی کے ساتھ واپس جارہے تھے۔ ہر طرف پاکستانی عوام جیت کی خوشی منا رہے تھے کہ اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک پاکستانی گروپ کو "گو نواز گو" کا نعرہ لگاتے دیکھا غور سے دیکھنے کے بعد پتا چلا کہ پی ٹی آئی کے گروپ نے نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ جگنو سیٹھی کو گھیر رکھا تھا اور ان کو دھکے دے رہے تھے اور بدتمیزی کر رہے تھے۔ میرے گھر کا ماحول تبدیل ہورہا تھا کیونکہ کسی کو سمجھ نہی آرہی تھی کہ اچانک کیا ہوگیا۔ گھر میں میرے علاوہ پاکستان کے سیاسی حالات کوکوئی نہیں جانتا تھا۔مہمانوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا انڈین اور پاکستانی گروپ آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی جب میں نے ان کو حالات سے آگاہ کیا۔ مجھے جتنا دکھ ہوا اس سے زیادہ افسوس مجھے اپنی فیملی کو سمجھاتے ہوئے ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے پاکستان تو جیت گیا مگر یہ پاکستانی کیا کر رہے تھے۔ یہ گروپ پی ٹی آئی کا گروپ تھا۔ لندن کی پولیس نے نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ کو ان کے چنگل سے نکالا۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جس شخص کی حکمت عملی سے ہم آج چیمپئن ٹرافی جیتے ہیں کیا وہ اس سلوک کا مستحق تھا؟۔ پاکستان سُپر لیگ کے ٹیلنٹ نے آج اس جیت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ نجم سیٹھی سے کسی کو کتنا بھی اختلاف ہو مگر پاکستان کی کرکٹ میں ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگا۔ عمران خان کی نجم سیٹھی سے نفرت سمجھ سے باہر ہے پی ٹی آئی کا اخلاقی اقدار کو پس پُشت ڈال کر نجم سیٹھی کے ساتھ یہ سلوک عمران خان کی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔اگر عمران خان کو پینتیس پنکچرز کا دکھ ہے تو جوڈیشل کمیشن میں تو انہوں نے پینتیس پنکچرز کا ذکر تک نہیںکیا۔ نہ انہوں نے نجم سیٹھی کو کسی عدالت میں چیلنج کیا بلکہ نجم سیٹھی نے ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا ہے عمران اس کا جواب بھی نہیں دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان جانتے ہیں کہ سچائی اگر سامنے آئی تو عمران خان پر تنقید کرنے والے کا راستہ اور صاف ہوجائے گا۔ نجم سیٹھی کے حوالے سے عمران خان نے بعد میں خود اقرار کیا کہ یہ سیاسی بیان تھا۔ نجم سیٹھی نے پی ایس ایل کا فائنل غیر ملکیوں کی شرکت کے ساتھ پاکستان میں کروا کر بین الاقوامی کرکٹ کے راستے پاکستان کے لئے کھولے ۔ مجھے پی ٹی آئی کے رویے میں جمہوریت نظر نہیں آتی۔ کسی بھی جمہوری معاشرے یانظام میں اگر سوچ اور نظریے میں جمہوریت ہے تب تو جمہوریت ہے ورنہ یہ جمہوریت کسی کھوکھلے نعرے سے کبھی بھی نہیں آسکتی۔ ہاں وقتی طور پر یہ نعرے سُننے میں خوشگوار لگتے ہیں مگر جلد ہی ان کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی جمہورہت بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا۔ اس جمہوری نظام کی خلاف عمران نے ایک اور جمہوری نظام کا نعرہ لگایا اور عوام اس نعرے پر لبیک کہہ کر سڑکوں پر آگئے مگر اب مایوسی ہوتی ہے ۔ کم از کم مجھے تو لگتا ہے کہ عمران خان کے جمہوری کنٹینر کے ٹائروں سے تبدیلی کی ہوا نکل رہی ہے اور جو تھوڑی بہت رہ گئی ہے وہ الیکشن میں نکل جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں (ہوسکتا ہے غلط سمجھتا ہوں ) عمران خان کی طبیعت میں ہی جمہوریت نہیں ہے میں زمانہ طالب علمی میں جب عمران خان کے میچز دیکھا کرتا تھا تب بھی مجھے اس میں ایک گھمنڈی کپتان نظر آتا تھا، اس کی باڈی لینگویج چہرے کے اتار چھڑھاؤ سے کبھی بھی مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ کپتان صاحب دوستوں کے دوست ہیں۔ یا کم از کم کسی غریب یا اپنے سے کم کسی کے دوست ہو سکتے ہیں مگر پھر بھی لوگ ان کے فین ہیں۔ اس لئے ان کی مقبولیت آج بھی عوام میں ہے چلیں ہمیں کیا ( جنہوں نے کھائی گاجریں ان کے پیٹ میں درد) اس کو پنجابی میں ٹرانسلیٹ کر لیجئے گا۔ عمران خان نے تبدیلی کانعرہ لگایا تو مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی ایک نئ تبدیلی کا انتظار کرنے لگے عمران خان کے بارے میںمیرے منفی نظریات کے باوجود بھی کہ شاید ایک سیاسی شخصیت کے طور پر ان کی شخصیت میں بھی تبدیلی ہو گی مگر مایوسی ہوئی۔ آج بھی جلسوں ،جلوسوں میں یا کسی پریس کانفرنس میں کوئی پی ٹی آئی کا ہی غریب ورکر ان کے نزدیک ہو یا ان سے چھو جائے تو ان کی کونی اس ورکر کو ان سے دور لے جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی کی تربیت بھی اسی طرح ہوئی ہے، سیاسی تدبر اور فہم و فراست کی کمی کی وجہ سے ان کو اپنے بیانات پر یو ٹرن لیتا پڑتا ہے۔ کپتان صاحب کی سب سے بڑی کمزوری ان کے بغیر سوچے سمجھے بیانات ہیں ۔ شیخ رشید کے بارے میں کہتے تھے کہ ان کو اپنا چپڑاسی بھی رکھنا پسند نہیں کریں گے اب وہ ان کے دوست ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے گُن گاتے تھے اب ان پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ چوہدری افتخار کو انقلاب کی امید سمجھتے تھے۔ زرداری اور اس کے حواریوں کو پاکستان کا سب سے بڑا نقصان سمجھتے تھےاب انہیں حواریوں کو پاکستان میں تبدیلی کی ضمانت سمجھنے لگے ہیں۔ الطاف حسین کو سزا دلانے کے لئے بریف کیس بھر کر لندن لے کرگئے۔ مگر اس بریف کیس میں سب کچھ تھا سوائے ثبوتوں کے۔ نوازشریف پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کران کے خلاف دھرنے دیئے لوگوں کو سول نافرمانی پر اکسایا۔ سب سے کہا کہ وہ کسی قسم کے بھی بل ادا نہ کریں مگر بنی گالا کے تمام بلز وقت پر ادا کئے۔ اعلان کیا کہ ان کے پاس الیکشن میں دھاندلی کے خلاف ثبوتوں سے ایک کمرا بھرا ہوا ہے مگر جوڈیشل کمیشن کے پاس جاتے وقت سب کچھ لے کر گئے سوائے ثبوتوں کے۔ جس میڈیا گروپ نے اس عمران خان کو جب وہ تنہا تھے سپورٹ کیا سب سے زیادہ وقت اور عزت دی عمران خان اسی میڈیا کے خلاف سب سے زیادہ بیانات دیتے ہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سب کہیں اور جو میں دیکھ رہا ہوں سب وہ دیکھیں ورنہ آنکھوں پر پٹی باندھ لیں۔ واہ رے تبدیلی۔

تازہ ترین