• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی تشکیل سے پہلے ہی ہائی جیک کرلی گئی تھی

اسلام آباد (احمد نورانی) پاناما کی جے آئی ٹی کے کام نے اس کی اپنی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی اس کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس کے قیام سے قبل ہی کسی نے جے آئی ٹی کے لئے کام شروع کر دیا تھا۔ ابھی تک سرکاری طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ جے آئی ٹی کی طرف سے کون شو چلا رہا ہے لیکن جے آئی ٹی کی طرف سے اس کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے سے متعلق شکایات جو 12 جون کو جمع کرائی گئی سے جے آئی ٹی کے قیام سے قبل کے کام کے متعلق کچھ ناقابل یقین حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی کی دستاویز سے انکشاف ہوتا ہے کہ ٹیم نے ارکان نے 29 مختلف ٹاک شوز میں 22 صحافیوں، 4 سیاستدانوں اور تین قانونی ماہرین کے تبصروں کی نگرانی کی جبکہ اس وقت جے آئی ٹی کا وجود بھی نہیں تھا۔ جے آئی ٹی 5 مئی کو قائم ہوئی جبکہ جے آئی ٹی نے اپنی شکایت میں انکشاف کیا ہے کہ اس نے 20 اپریل  کو (دو پروگرام) 21 اپریل کو (4 پروگرام) 23 اپریل کو (2 پروگرام) 24 اپریل کو (2 پروگرام) 26 اپریل کو (2 پروگرام) 27 اپریل کو (2 پروگرام) 28 اپریل کو (4 پروگرام) دو مئی کو (2 پروگرام) اور 3 مئی کو (2 پروگرام) کی نگرانی کی تھی اور ان پروگرامز میں صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے کیے گئے تبصرے اور تجزیے رپورٹ کیے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ جے  آئی ٹی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس نے 20 اپریل کو (1 پروگرام)22 اپریل کو (1 پروگرام) 2 مئی کو (1 پروگرام)اور 3 مئی کو (1پروگرام) ہونے والے پروگرامز کی نگرانی کی اور تبصرے نوٹ کیے۔ مزید براں جے آئی ٹی نے تین قانونی ماہرین کی جانب سے 20، 22 اور 23 اپریل کے پروگرامز میں کیے جانے والے تبصروں کا بھی حوالہ دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس تاریخ کو اصل میں جے آئی ٹی کی تشکیل ہوئی اور اصل میں کس تاریخ کو اس نے کام شروع کیا؟ کوئی بھی پرانے اخبارات کا جائزہ لے سکتا ہے لیکن یہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس تاریخ سے اتنے ٹاک شو کی نگرانی کرنا جب کہ جے آئی ٹی بنی بھی نہیں تھی ، واضح طور پر کسی اور کا کام ہے۔ وہ کون ہے، یہ اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے اور اس کی گہرائی سے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ بار بار کی شکایات کے باوجود اس طرح کے معاملات میں مکمل تحقیقات کے لئے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا جس سے ہر چیز مشکوک اور متنازع ہوگئی ہے۔ اس نکتے سے شروعات کرتے ہوئے کہ کس نے واٹس ایپ کال کی، جس نے حسین نواز کی تصویر لیک کی، جس نے حسین نواز کی تصویر لیک کی اس کے ادارے کا نام کیا تھا، اداروں کے سربراہوں کی جانب سے نامزد ہونے والوں کے بارے میں منفی رپورٹ کون دے رہا  تھا اور کس نے حتمی طور پر منتخب ہونے والوں کے بارے میں ’’مثبت رپورٹ‘‘ فراہم کی اور یہ سوال کہ کس نے گواہوں کی کالز ٹیپ کرنے  کی اجازت دی اور اس کی کیوں ضرورت تھی، تفصیلی انکوائری کے لئے اب تک کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ کیا یہ ارکان جے آئی ٹی میں اپنی شمولیت کے بارے میں اس قدر پریقین تھے کہ انہوں نے جے آئی کی موزوں تشکیل سے بھی کئی ہفتوں قبل کام کرنا شروع کر دیا تھا؟ کس نے انہیں اس قدر مضبوط یقین دہانی کرائی تھی۔ جے آئی ٹی نے 22 اپریل 2017 سے 3 مئی 2017 تک کی تاریخوں میں 22 صحافیوں کے تبصروں کا حوالہ دیا۔ 20 اپریل کے لئے جے آئی ٹی نے سینئر صحافی نصرت جاوید کے تبصرے کا حوالہ دیا کہ ’’اب تک میرا خیال تھا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی اور ایم آئی خفیہ معلومات جمع کرنے والے ادارے ہیں اور مالی معاملات میں ڈیل کرنے کے ماہر نہیں ہیں۔ غالبا ایس بی آئی اور ایس آئی بی کو فوج کے اندر اس طرح کی تحقیقات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جنہیں اس طرح کی چیزوں کی تربیت دی گئی ہے۔ یہ بہت خطرناک فیصلہ ہے کیونکہ اگر جے آئی ٹی میں چار سویلین وزیراعظم کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں اور ایم آئی اور آئی ایس آئی خلاف فیصلہ دیتی ہیں تو اس کا مطلب سویلین ملٹری کشیدگی ہوگا۔‘‘ شکایت میں وکیل عاصمہ جہانگیر کا 20 اپریل کو کیا گیا تبصرہ بھی شامل ہے کہ ’’ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کو بھی پاناما کیس پر جے آئی ٹی کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ کوئی بھی آئی ایس آئی اور ایم آئی کی اجازت/ معاونت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔‘‘22 اپریل کو جے آئی ٹی کی مانیٹرنگ کے مطابق سینئر وکیل عرفان قادر نے بھی کچھ تبصرہ کیا تھا جس سے ارکان کو دکھ ہوا جو اس تاریخ کو رکن بھی نہیں تھے۔ اسی طرح جے آئی ٹی کی اس 120 صفحات کی شکایات کے مطابق سینئر وکیل احمد بلال صوفی نے جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ بتاریخ 23 اپریل میں تبصرہ کیا تھا کہ ’’آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکاروں کو شواہد جمع کرنے میں نہیں بلکہ خفیہ معلومات جمع کرنے میں مہارت ہوتی ہے۔ وہ خفیہ معلومات جمع کرتے ہیں جو غیر تصدیق شدہ ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ تصدیق شدہ شواہد کی خواہش مند ہے جبکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی دونوں اداروں کے نمائندوں کے پاس شواہد جمع کرنے کی تربیت نہیں ہے لہٰذا وہ خفیہ معلومات جمع کریں گے اور جے آئی ٹی کے ارکان کے مابین صورتحال کشیدہ ہوجائے گی۔‘‘ جے آئی ٹی نے اپنی موزوں تشکیل سے 12 روز قبل بلال صوفی کے اس تبصرے کی بھی مانیٹرنگ کی۔ 

تازہ ترین