• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثقافت ہی کسی ملک کا آئینہ ہوتی ہے،اکیڈمیز کی ضرورت ہے،فاروق قیصر

کراچی (ٹی وی رپورٹ)ادیب دانشور،اداکار اور ہدایتکار فاروق قیصر کا کہنا ہے کہ ہم نے جو غلطی یا کوتاہی کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ تیار نہیں ہوئے۔ وہ اداکار، ہدایتکار اور دانشور جنہوں نے آج کے لیے اپنے فن کو آگے بڑھانا تھا وہ نہیں دے پائے اور آج کا دور تو اتنا تیز ہو گیاہے کہ اگر آپ اسے کا ایک دن سے بھی مس کریں گے تو آپ ایک دن پیچھے رہ جائیں گے۔ثقافت ہی کسی ملک کا آئینہ ہوتی ہے۔ پس پردہ کام کرنے کی وجہ سے آج تک لوگوں سے محبت مل رہی ہے وہ جیو کے پروگرام’’ جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صحافی سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان میں اکیڈمیز کی ضرورت ہے۔ اکیڈمی میں ٹیچر جو تجربہ حاصل کر لیتا ہے جو سیکھ لیتا ہے وہ اس تجربے کو پھر آگے ڈیلیور کرتا ہے۔ میزبان سلیم صحافی کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال کہ خود اسکرین پر سامنے آنے کے بجائے کٹھ پتلیوںکاسہارا کیوں لیا، اس پر فاروق قیصر کا کہنا تھا کہ وہ شروع سے ہی بہت شرمیلے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب یہ کٹھ پتلیوں سے شروع کیا تو بطخ بنائے اپنے برابر 6فٹ اونچی اور پہلی ایک دو ریکارڈنگ میںبطخ گر گئی تو شعیب ہاشمی صاحب نے کہا کے بے ہوش ہوگیا ہے اور اس وقت میں واقعی میں بے ہوش ہوگیا تھا۔ پھر انہوںنے مجھے سمجھایا کہ اس کو بنانے کا طریقہ ہوتا ہے اس میں سانس لینے کے لیے سراخ رکھو اور اسی سے بناتے بناتے میں سیکھتا گیا۔پھر آہستہ آہستہ میں نے عرفان کھوسٹ کے لیے بنایا پھر ثمینہ احمد کے لیے بنایا جو انہوں نے اکڑ بکڑ میں پرفارم کیا اور اسکی آوازیں دیں۔ یہ سب کرتے کرتے خود ہی سیکھا ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہفتہ وار یونیورسٹی میں لیکچر بھی دیتے ہیں اور وہا ں پر وہ جو کام سیکھاتے ہیں وہ کام جو انہوں نے 40برسوں میں سیکھا وہ یونیورسٹی کی طالبات40دنوں میں سیکھ لیتی ہیں۔ فاروق قیصر نے کہا کہ آج کے زمانے میں ٹیکنالوجی اتنی تیز ہوگئی ہے اور اس سے بچے بھی کافی ذہین ہوگئے ہیں۔ا نہوں نے کہا کے آج کے زمانے میں ہم نے ٹیچر کو مس کر دیا ہے، پہلے ٹیچر کا ایک کردار ہوتا تھا ایک شخصیت ہوتی تھی جس کی کمی آج محسوس ہوتی ہے۔ فاروق قیصر نے بتایا کہ ان کے اوپر ایک الزام یہ بھی لگتا تھا کہ میں نے زبان خراب کی ہے۔ جب پروگرام شروع ہو ا تھا بڑے اعتراضات لگے تھے کہ میں زبان خراب کر رہا ہوں جب کہ میں نے کوئی لفظ اپنے پاس سے نہیں نکالا تھا صرف جو الفاظ ہم استعمال کرتے تھے اس کو ٹی وی پر لے کر آگیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی علاقائی زبانیں اور لہجے ہی پاکستان کی اصل خوبصورتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ثقافت ہی کسی ملک کا آئینہ ہوتی ہے اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کتنا ڈیویلپ ہے اور یہاں کے لوگ کتنے پڑھے لکھے ہیں اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں آج کل کے ٹی وی چینلز سے ایک شکایت ہے کہ ہمارے زمانے میں پروگرام مینیجرز ہوتے تھے جو ہمیں بتاتے تھے لیکن میں کچھ پرائیویٹ چینلز پر کام کر کے یہ دیکھا ہے کہ وہاں پر مالک کی چلتی ہے ان کی پالیسی چلتی ہے اور اس کی جگہ وہاں کوئی پروفیشنل موجود ہونا چاہیے اور اسے پوری آزادی دینی چاہیے لیکن  آزادی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کوئی سنسر شپ نہ ہو، کچھ چیزیں سنسر ہونی چاہیے میں سنسر شپ کے حق میں ہوں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جس میں اظہارِ رائے ہو، وقت کے ساتھ چلنے کا ورنہ آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ اور جیو اس حوالے سے بہت زبردست کام کر رہا ہے۔ میزبان سلیم صحافی کی جانب سے کسی بھی پروگرام پر لوگوں کی توجہ برقرار رکھنے کے سوال پر جواب دیتے ہوئےفاروق قیصر کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی ایسی راز کی بات نہیں بس آپ کو اپنے کام کو پوری توجہ سے کرنا ضروری ہے۔کام ایک زندہ چیز ہے اس کو آپ جتنا دیں گے اتنا ہی آپ کو واپس ملے گا۔ سلیم صحافی کی جانب سے کیے جانے والے سوال کہ اب لوگوں کو پردے پر سامنے آنے کی لگی رہتی ہے اور آپ تو پردے کے پیچھے ہی رہے ہیں تو یہ آپ نے کیسے کر لیا، اس پر فاروق قیصر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سوال میں ہی آپکا جواب ہے۔ پس پردہ کام کرنے کی وجہ سے آج تک لوگوں سے محبت مل رہی ہے اور میں اگر سامنے آتا تو شاید دلوں سے اتر جاتا۔ فاروق قیصر نے بتایا کہ آج کے چینلز پر چلنے والے مزاحیہ پروگراموں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ان کو گائیڈ کرنے والا کوئی نہیں ۔ آج کے کامیڈین بہت با صلاحیت ہیں بس یہ ہے کہ ان کو راہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کے مزاحیہ پروگراموں میں صرف ہنسانا رہ گیا ہے مگر سنجیدگی ذرا بھی نظر نہیں آتی۔ زندگی میں ہنسانا تو بہت ضروری ہے لیکن اصلی چیز غم ہے اور غم کو توڑنے کے لیے ہنسانا اصل چیز ہے۔ اتنے سال لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے ، ان کو انٹرٹین کرنے کے بعد اس کا کوئی صلہ ملے جانے کے سوال پر فاروق قیصر نے جواب دیا کہ لوگوں کی محبت ملنے پر سب سے زیادہ خوشی ملتی ہے، میں یہاں ہوں یا ملک سے باہر جب لوگوں کی محبت ملتی ہے تو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکرادا کرتا ہوں کہ مجھے کسی کے اوپر انحصار کرنے والا نہیں بنایا اور میں نے کبھی وقت کے حاکموں سے کچھ نہیں لیا۔ فاروق قیصرکا کہنا ہے کہ ہمیں ساری دنیا سے ڈائیلاگ کرنا چاہیے جنگوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے آج تک پاکستان میں قائداعظم کے سوا کوئی پاکستانی لیڈر نظر نہیں آیا۔ عمران خان کے حوالے سے سوال کیے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران کے ساتھ کام کیا ہے اور وہ ایک سچا اور صاف گو بندہ ہے اور کیا ایسا انسان ہماری سیاست میں چل پائے گا جہاں کسی کو خوش کرنا ہے اور کسی کو ناراض ، میرے خیال میں نہیں۔ 

تازہ ترین