• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی کے پاس پیچیدہ ٹیکس قوانین کو سمجھنے والا ماہر موجود نہیں

Todays Print

اسلام آباد(مہتاب حیدر)حکمران خاندان کی منی ٹریل سے متعلق تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ایف بی آر سے 1980تک کا ٹیکس ریکارڈ حاصل کرلیا ہے، تاہم جے آئی ٹی کے پاس کوئی ٹیکس ماہر نہیں ہےجو پیچیدہ ٹیکس قوانین کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

ٹیکس ریکارڈ کی فراہمی سے متعلق ایک تنازعہ یہ بھی ہے کہ ٹیکس مشینری کی فائلز میں کچھ ٹیکس ریکارڈ موجود بھی نہیں ہے۔اسی وجہ سے اس مسئلے کو  بغیر کسی تعصب کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔مثلاً ایف بی آر کے پاس فوجی آمر ضیاء الحق ، جس مدت کے لیے یعنی 1977 سے 1988 تک کا جب کہ وہ اس ملک کے حکمران تھے، اس مدت کا ٹیکس ریکارڈ موجود نہیں ہے کیوں کہ ریکارڈ نہ ہی ترتیب دیا گیا تھا اور نہ محفوظ کیا گیا تھا۔

قانون کے تحت ایف بی آر پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہےکہ وہ اتنا پرانا ریکارڈ کئی برس تک محفوظ رکھے ،جب کہ قانون کے تحت انہیں اس کی ضرورت بھی نہ ہو۔مینول ٹیکس ریکارڈ کو محفوظ رکھنےکی بھی متعدد شرطیں ہیں ، جیسا کہ مقدمہ بازی کے سبب ایف بی آر پابند ہے کہ وہ ریکارڈ محفوظ رکھے۔عام حالات میں باقائدہ ریکارڈ ترتیب نہیں دیا جاتا۔ عدالت عظمیٰ کی ہدایات پر تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی میں ایف بی آر رکن کو شامل نہ کرنا ترجیحات میں شامل تھا۔اسی لیے اب تفتیش کنندگان وزیر اعظم نوازشریف کے خاندان اور دیگر کا ہر طرح کا ٹیکس ریکارڈ حاصل کررہے ہیں ۔

تاہم وہ یہ نہیں جانتے وہ اپنے کیس کا آغاز کہاں سے کریں ، جس کی بنیاد پر وہ قانون کی عدالت میں نااہلیت ثابت کرسکیں۔کوئی بھی مالیاتی فراڈٹیکس ریکارڈ کےگرد گھومتا ہے۔کرپشن یا ٹیکس چوری کے الزامات کی بنیاد پر دو طرح کے کیس بنائے جاسکتے ہیںلہٰذا جے آئی ٹی میں کسی ٹیکس ماہر کی شمولیت سے پیشہ ورانہ طور پر انہیں بہتر مدد ملتی بجائے اس کہ کے وہ اداروں کی جانب سے تعاون نہ کرنے کی شکایتیں کررہے ہوتے۔ایف بی آر کے ایک اہم عہدیدار نے اتوار کے روز دی نیوز کو بتایا کہ اب جے آئی ٹی مزید ٹیکس ریکارڈز کی تلاش میں ہے، جب کہ نئی حتمی تاریخ 28جون ، 2017 ہے۔

تاہم ہم نے انہیں مطلع کیا ہے کہ عید کی چھٹیوں کے سبب ریکارڈز اتنی جلد بازی میں پیش نہیں کیے جاسکتے۔جے آئی ٹی کی تشکیل میں ایف بی آر کو خارج کرنے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ایک وجہ تو یہ کہ اس محکمے کو حکمرانوں کا فرماں بردار سمجھا جاتا ہے۔کافی حد تک یہ حقیقت بھی ہےتاہم کوئی ٹیکس مشینری کو مورد الزام نہیں ٹھہراسکتا۔سیاسی تقسیم سے قطع نظر فوجی  یا جمہوری حکومتوں نے بھی پاکستان میں کبھی ایف بی آر کو خودمختارنہیں کیا، لہٰذا ان سے معجزات کی توقع ایک غیر منصفانہ مطالبہ ہے۔

دوسری وجہ ایف بی آر کے اہم عہدیداروں نے بھی بتائی ہے ۔ان کے مطابق، اگر کسی ٹیکس ماہر کو جے آئی ٹی کا حصہ بنایا جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اس کے موقف کو بھی سماعت کا حصہ سمجھا جاتا۔ملک کے قانون کے مطابق ٹیکس مشینری کیس ریٹرن فائلرز کے حوالے سے 5سال اور نان فائلرز کے حوالے سے 10سال سے ذائد نہیں جاسکتی۔

ایف بی آر کے مینول ٹیکس ریکارڈز کو برقرار رکھنے سے متعلق ہدایات موجود ہیں۔مقدمے کی صورت میں ایف بی آرریکارڈ برقرار کھنے کا پابند ہے۔تاہم ایسا نہ ہونے کی صورت میں بہت مشکل ہے کہ اتنا بڑا ریکارڈ10سے 15برس تک محفوظ رکھا جائے۔جہاں تک لاہور کا تعلق ہے کہ جہاں سے حکمران خاندان کا تعلق ہےایف بی آر نے ان کا کئی برس کا ٹیکس ریکارڈ ڈھونڈ لیا ہےکہ جہاں پر 15 سے 20لاکھ فائلیں مینول حالت میں تھیں۔اس ضمن میں ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ خوش قسمتی سے ہم نے یہ ریکارڈ ڈھونڈ نکالا ورنہ شایدایف بی آر کو گہری دلدل میں دھنسا دیا جاتا۔

تازہ ترین