• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار کامیابی ... تحریر:علی جیلانی…سوئٹزرلینڈ

18جون کا دن پاکستانی قوم کے لیے انتہائی خوشی کا دن تھا، وہ چہرے جو مرجھائے ہوئے تھے، وہ خوشی سے کھلکھلا اٹھے۔ جو غم انہیں چیمپئنز ٹرافی کے پہلے میچ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کی صورت میں ملا تھا آخر پاکستانی کرکٹ ٹیم نے قوم کا وہ غم مٹا دیا اور اتنی خوشی دی کہ برسوں یہ خوشی یاد رہے گی، جیسے ہی158رنز پر بھارت کی آخری وکٹ گری پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی تھے وہاں کی فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پاکستان کی ٹیم نے شاندار بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ کرکے بھارت کا غرور مٹا ڈالا اور بھارتی ٹیم پاکستانی سکور339تو درکنار آدھا سکور بھی نہ کرسکی۔ نوجوانوں کی اس ٹیم نے کرکٹ کے حاضرین اور تجزیہ کاروں کو حیران کردیا اور پہلے میچ کا بدلہ لے کر چیمپئن ٹرافی بھی اپنے نام کرلی۔ خدا کی قدرت بھی بڑی مہربان تھی اور پاکستان کے فخر، فخر زمان کو نو بال کی صورت میں نئی زندگی ملی اور اوپنر نے128رنز کی شراکت سے جیت کی بنیاد ڈالی۔ اگر اس میچ کو شروع سے آخر تک دیکھا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہر کھلاڑی نے محنت کی۔ بھارت کے تجزیہ کار اور بھارتی ٹیم کے کپتان بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کو ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ دے دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ٹیم 200رنز بنالے گی۔ لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہہ گئی۔ آخر بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے میچ کے اختتام پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ٹیم نے بیٹنگ، فیلڈنگ اور بولنگ کے شعبے میں آئوٹ کلاس کرکے یہ ثابت کردیا کہ یہ ٹیم ہر ٹیم کو ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس میچ کی خاص بات یہ ہے کہ ہر کھلاڑی نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور پاکستانی کھلاڑی کے لیے جو محاورہ مشہور ہے کہ ’’تو چل میں آیا‘‘ یعنی ایک آئوٹ ہونے کے بعد سب کی لائن لگ جاتی ہے اور سب کو پویلین جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ اس محاورے کے بالکل برعکس کھیل کا مظاہرہ کیا اور قوم کو عید کا بہترین تحفہ دیا۔ حسن اتفاق دیکھیں کہ1992کا ورلڈ کپ عمران خان کی قیادت میں رمضان المبارک میں آیا اور 2017کی چیمپئن ٹرافی بھی رمضان المبارک کے مہینے میں حاصل ہوئی ابھی ان نوجوان کھلاڑیوں کے بڑے امتحان ہیں کیونکہ اس کھیل میں میچ فکسنگ کے لیے کھلاڑیوں کو بڑی بڑی آفر دی جاتی ہیں ماضی میں ہمارے کئی کھلاڑی ان معاملات کا شکار ہوئے اور ملک کی بدنامی ہوئی۔ کرکٹ بورڈ نے اچھا اقدام اٹھایا کہ ان کھلاڑیوں کے خلاف ایکشن لیا اور ٹیم سے ہی باہر نکال دیا، اب ان کھلاڑیوں پر بڑی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو انہیں چیمپئن ٹرافی کی فتح دے کر عزت بخشی ہے اور ملک کا وقار بلند کیا ہے، اس کو ان سب کھلاڑیوں نے برقرار رکھنا ہے۔ بڑی خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ کشمیری عوام نے اس کامیابی کو بڑے جوش و خروش سے پاکستانی عوام کے ساتھ منایا۔ اس سے یہ مثبت پیغام گیا ہے کہ وہ اپنا سیاسی مستقبل پاکستان کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میچ سے بہت سارے منفی رویوں اور غرور و تکبر کو شکست ہوئی ہے اور اس بات کی بھی نفی ہوئی کہ پاکستان8ویں نمبر کی ٹیم ہے۔ ٹرافی کے پہلے میچ میں پاکستان کو ہرانے کے بعد بھارتی میڈیا نے بے انتہا پروپیگنڈہ کیا اور ہماری ٹیم کو بے انتہا بدنام کیا، لیکن سرفراز الیون نے ان باتوں پر دھیان نہیں دیا اور ایک عزم لے کر بقیہ سارے میچ کھیلے اور جیت سے ہمکنار ہوئے، اس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اگر آپ کو زندگی میں کبھی شکست ہوجائے تو آپ مایوس نہ ہوں، کیونکہ گرنے کے بعد انسان ایک نئے جذبہ سے اٹھتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا پہلے میچ سے تمام میچز تک ایک جذبہ، حب الوطنی، خدا پر بھروسہ اور ٹیم سپرٹ تھی، جس کی وجہ سے وہ آگے بڑھتی گئی اور آئندہ بھی اسی طرح یہ نوجوان کرکٹر دل میں ایک جذبہ عزم لے کر کھیلیں گے۔ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

 

.

تازہ ترین