• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسی سیاست سے ہم باز آئے! ... گل و خار …سیمسن جاوید

کسی الجھن کو سلجھانا یا کسی مسئلے کا بڑے احسن طریقے سے حل نکالناسیاست ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی سیاست دانوں نے مثبت سوچ کو منفی میں بدل کرسیاست کے معنی ہی بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ اب سیاست اقتدار حاصل کرنے یا ذاتی مفادات کے لئے کی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاست کا نام آتے ہی فوری طور پر کرپشن کا لفظ ذہن میں اْبھرنے لگتا ہے۔حکومتی خزانہ جو عوام کا پیسہ ہوتا ہے اور عوام کی امانت ہےاس کو خوب لوٹا جاتا ہے اور لوٹی ہوئی دولت سوئس بینکوں میں جمع کروادی جاتی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں لے سکتا۔ غیر ممالک میں آف شورکمپنیوں میں وہ پیسہ لگاتے ہیں اور راتوں رات ارب و کھرب پتی بن جاتے ہیں۔کئی سیاست دانوں کو بڑے فخر سے میڈیا پر یہ کہتے ہوئے سنا اور دیکھا گیا ہے کہ جو سیاست دان کرورڑوں روپے لگا کر انتخابات جیتے گا اور اسے یہ یقین نہ ہو کہ وہ اپنی مدت پوری بھی کرسکے گا یا نہیں تو وہ کرپشن کیسے نہ کرے گااور وہ انصاف کے بہانے اپنے حریفوں کو عدالت میں کھنچنے کے علاوہ اور کیا کرے گا۔رہی بات عوام کی تو وہ جائے بھاڑ میں ۔خیر تمام سیاست دانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا بھی انصاف نہ ہوگاکچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ایسی گندی سیاست سے ہم تو باز آئے۔ اس سے پہلے کہ تمام سیاست دان کرپشن کے رنگ میں رنگ جائیں اور کوئی خدا ترس بندہ سیاست میں نہ آئےاور اس سے پہلے کہ صادق و امین کا کال پڑجائے غریب کمیونٹیز کی عزتیں خاک میں ملتی رہیںاور یہ فرسودہ نظام اسی طرح چلتا رہے ۔کسی خدا کے بندے کو حضرت موسیٰ بن کریہ نظام بدلنا ہوگا سندھ میں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی رویتا میگھواڑ جیسی بہت سی نابالغ لڑکیوں کو جبراً مذہب تبدیل کروا کر ان سے نکاح کر لیا جائے اور انصاف کی دیوی جس کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئی ہے۔وہ بھی جبراًتبدیلی مذہب اور غیر منصفانہ انصاف پربے بس نظر آتی ہے۔ مذہب ایک ایسی سیسہ پلائی دیوار ہے جس کے سامنے انصاف بھی ڈانواڈول ہو جاتا ہے۔اسی طرح کے بہت سے واقعات پنجاب میں مسیحی کمیونٹی کے ساتھ بھی ہوتے رہتے ہیں۔جبراً تبدیلی مذہب کا بل سندھ اسمبلی سے پاس ہو کرجب گورنر کے پاس منظوری کے لیے گیا تو انھوں نے اس پر دستخط نہیں کیے اور وہ جماعتیں جن کی سندھ اسمبلی میں کوئی نمائندگی موجود نہیں، انھوں نے ملک گیر احتجاج کیا اور یہ بل منظورنہ ہوا۔ اسی قسم کا بل جو پنجاب اسمبلی کے مسیحی نمائندے اسمبلی میں لانا چاہتے ہیںابھی تک اسمبلی میں بحث کے لئے پیش نہیں ہو سکا۔ کمیونٹی کےسیاست دان ابھی ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف ہیں اور اس پکڑ دھکڑ کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔سیاستدانوں کے غیر مناسب رویوں کی وجہ سے اور عدالتوں میں انصاف نہ ملنے پر لوگ جہاں عدم تحفظ کا شکار ہوئے ہیں وہاں عدم برداشت اور بربریت نے جگہ لے لی ہے۔اگر ایک آدھ اقلیت سے تعلق رکھنے والا نمائندہ جرأت کرکے استحصال اور نانصافیوں کے خلاف ایوانوں میں آواز بلند کرتا ہے توان کی آوازبہری دیواروں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی ہے۔نجانے یہ سلسلہ کب تک یونہی چلتا رہے گا۔ مذہب کوئی بھی ہو وہ نہ انسانی تفریق اور ظلم کا درس دیتا ہے اور نہ ہی نا حق بیگانے مال اور بیگانی عورت پر نظر رکھنے کی اجازت دیتا ہے ۔ سیاست کی اکائی سیاست دان ہے ،جس کی عمارت حکومت ہے اور جسکا ڈھانچہ ایوان بالا اور قانون ساز اسمبلیاں ہیں۔ جو ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کی فلاح و بہبود،تعمیر و ترقی ، جان و مال کی حفاظت اور حقوق کے لئے قوانین مشترکہ طور پربل پاس کرتی ہیں اور اس پر عمل درآمد کروانے اور لوگوں کو انصاف دلوانے کے لئے عدالتیں ہیں اور معاونت کے لئے ایجنسیاں موجودہیں جو ملک کے ہر شہری کی بلا متیاز جان و مال کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہیں ۔مگر یہاں بھی امیری ، غریبی اوررسائی کا غلباً نظر آتا ہے۔ایسے نظام کو کون بدلے گا ہم توحید یعنی ایک خدا کو تو مانتے ہیں اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے۔ ہم کرپشن ختم کرنے اور کرپٹ سیاست دانوں کو عدالت میں لے جانے کا کریڈٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار برائیوں کو ختم کرنے کے لئے اتحاد نہیں کرتے۔پاکستان میں مذہبی اقلیتیں اپنے حقوق کے حصول اور اپنی مذہبی اقدار کو بچانے کے لئے عملی سیاست میں آنا چاہتی ہیں مگر ان کے لئے سیاست کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ کمیونٹی کے اپنے ہی لوگوں نے الجھا کررکھاہوا ہے وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہے کہ کون سا طریقہ انتخاب ان کے لئے بہتر ہے۔تحفظات یہ بھی ہیں کہ اسمبلیوں میں جا کر بھی ان کی تقریروں سے یہ کھوٹے سکے چلنے والے نہیں۔ایک کان سے سنتے ہیں تو دوسرے کان سے باہر نکال دیتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ برطانوی اسمبلی میں برطانوی دارالعوام کے انتخابات کے لئے 30پاکستان نژاد امیدوار میدان میں آئے جن میں سے 12امیدوار کامیاب ہوئے۔ کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے 9کا تعلق لیبر پارٹی جب کہ 3 کا کنزرویٹو پارٹی سے ہے۔کچھ لوگوں کا اسرارہے کہ دوسرے پاکستانیوں کی طرح انگلینڈ میں رہنے والی برطانوی نژاد مسیحی کمیونٹی میں بھی سیاسی شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ بھی عملی سیاست میں آئےا ور اپنے مسائل کے حل کے لئے اسمبلی میں آواز اٹھا ئے۔برطانوی اسمبلی کی خوبصور ت بات یہ ہے کہ اس میں ہر منتخب نمائندے کو بلا امتیاز بولنے کا حق حاصل ہے۔اس مقصد کے لئے لیڈر شپ ،منصوبہ بندی ، سیاسی کمپین اور وقت بھی درکار ہے۔ خدا نے چاہا تو ایک دن برطانوی نژاد پاکستانی مسیحی بھی کونسلروں اور میئر ہونے کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں بھی ضرور پہنچیںگے۔

 

.

تازہ ترین