• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید کا موقع ہے لیکن طبیعت میں کچھ اضطراب ہے۔ ہر طرف سے عید مبارک کے پیغامات کی بھرمار ہے لیکن دل بے تاب ہے۔ عیدیاں وصول کرنے کے دن گزر گئے اب تو عیدیاں دے کر اور عید مل کر خوشی ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ مسکراتے انسانوں کے ہجوم میں تنہائی محسوس ہورہی ہے۔ میں اپنے آپ سے اس اضطراب کی وجہ پوچھ رہا ہوں ۔ کیا یہ کیفیت صرف میری ہے یا کوئی اور بھی خوشی کے اس موقع پر انجانے کرب کا شکار ہے؟ عید سے ایک دن قبل بہاولپور کے قریب ایک آئل ٹینکر کے حادثے میں بہت سے لوگ جل مرے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو حادثے کے بعد آئل ٹینکر سے بہتا ہوا تیل بوتلوں اور ڈبوں میں ڈال رہے تھے اورکچھ ایسے بھی تھے جو اس حادثے کو تماشا سمجھ کر دیکھ رہے تھے۔ آگ کا طوفان بھڑکا تو سب ان کی زد میں آگئے۔ نجانے کچھ لوگ حادثوں کے بعد مددگار بننے کی بجائے تماشائی کیوں بن جاتے ہیں؟اللہ تعالیٰ اس افسوسناک واقعہ میں جان گنوانے والوں کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو جلد از جلد صحت یاب کرے (آمین) لیکن میرا دل تو اس حادثے سے پہلے بھی مضطرب تھا، مجھے اس اضطراب سے نجات چاہئے لیکن نجات تو اسی صور ت میں ممکن ہے جب اضطراب کی وجہ مل جائے گی۔
کیا میرے اضطراب کی وجہ معاملات سیاست ہیں؟ نہیں بالکل نہیں! اس ناچیز کو آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل میں ضرور دلچسپی ہے لیکن مجھے ایسے حکمرانوں کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جو اپنے حق میں فیصلہ دینے والے ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد شریک اقتدار کرلیتے ہیں اور اگر کوئی جج’’انکار‘‘ کردے تو اسے جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دے دیتے ہیں۔مجھے سیاست کے بازار میں اپنے چہروں پر’’برائے فروخت‘‘ کا اشتہار سجا کر ضمیر کی قیمت لگانے والوں کی ڈھٹائی پر بھی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ہماری انصاف پسند ا پوزیشن تبدیلی کا نعرہ تو لگاتی ہے لیکن اس تبدیلی کا اصل مقصد صرف چہروں کی تبدیلی ہے۔ پرانے چہروں کو ساتھ ملا کر نیا نظام نہیں نیا مافیا تشکیل دیا جاتا ہے۔ یہ اسٹیٹس کو توڑنے نہیں بلکہ اسٹیٹس کو میں رونما ہونے والی دراڑوں کو جوڑنے کی سیاست ہے۔ میرے اضطراب کی وجہ سیاست و صحافت کے وہ خود ساختہ اہل حق بھی نہیں جو انپے احتساب کو مذاق قرار دینے والے حکمرانوں کے دفاع میں ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے ہیں اور اس بازی گری میں سسٹم کے لئے خطرات کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی سپریم کورٹ کا کوئی جج سسٹم کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گا اور خدانخواستہ بن بھی گیا تو تاریخ میں جسٹس محمد منیر ثانی یا مولوی مشتاق حسین کی نشانی کہلوائے گا۔1973کا آئین ہماری قومی تاریخ کی وہ واحد متفقہ دستاویز ہے جو پاکستان کی سالمیت اور اتحاد کی ضمانت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس آئین کے لئے خطرہ پیدا ہوا تو سپریم کورٹ، میڈیا، سول سوسائٹی ا ور تمام آئین پسندوں سمیت فوج بھی اس متفقہ دستاویز کا دفاع کرے گی۔میرا اضطراب 27رمضان المبارک کو شروع ہوا جب پوری قوم چیمپئنز ٹرافی کے فائنل کرکٹ میچ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی شاندار فتح پر خوشیاں منارہی تھی۔ ایک دن پہلے مشال ملک صاحبہ نے اپنے بہادر خاوند یاسین ملک سے میری واٹس ایپ پر بات کرائی تھی۔ میں اپنے دوست سے کافی عرصے بعد بات کرکے بہت خوش تھا کہ کشمیر کی مجبور و بےبس بہن نے مجھے خوفزدہ لہجے میں کہا کہ دعا کریں عید خیریت سے گزر جائے دل کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہیں دشمن ہماری ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر حملہ نہ کردیں۔ اگلے ہی دن27رمضان المبارک کی صبح کوئٹہ میں کار بم دھماکہ ہوا تو میں اس دشمن کے بارے میں سوچنے لگا جو ہماری خوشیوں پر جمعہ کا دن حملہ آور ہوا تھا۔
نماز جمعہ کے بعد پارا چنار میں دو خوفناک دھماکوں کی خبر ملی۔ پارا چنار پچھلے دس سال سے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں بار بار خونریزی ہوتی ہے اور بار بار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے دعوئوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے لیکن قتل عام جاری ہے۔ یہ علاقہ شمالی وزیرستان سے متصل ہے لیکن جس تنظیم نے27رمضان ا لمبارک کے دن پارا چنار میں بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ افغانستان میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس تنظیم کے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی ڈھکے چھپے نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پارا چنار کے چاروں طرف سیکورٹی حصار ہے۔ کوئی عام پاکستانی اس سیکورٹی حصار کوپار کرکے شہر میں آسانی سے داخل نہیں ہوسکتا تو پھر بار بار یہاں بم دھماکے کیوں ہوتے ہیں؟ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے کوئٹہ اور پارا چنار میں دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار بھارتی اورافغان خفیہ اداروں کو قرار دیا ہے لیکن اگر ہمیں افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا علم ہے تو ہم کوئی کارروائی کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟ ابھی تک ہم نے جو کارروائی بھی کی اپنی سرحدوں کے اندر رہ کر کی لیکن افغانستان کے راستے سے تو بار بار ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بھی سرحدوں کی خلاف ورزی کریں لیکن کیا ہم افغانستان میں موجود امریکی فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے؟ 27رمضان المبار ک کو کوئٹہ اور پارا چنار میں بم دھماکوں کے بعد کراچی میں افطار کے وقت پولیس کے جوانوں پر حملہ کیا گیا۔ 27رمضان کے دن دشمن نے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے تین شہروں میں خون کی ہولی کھیلی اور چیمپئنز ٹرافی میں فتح کے جشن کو رنج و الم میں بدل دیا۔27 رمضان کو کئے جانے والے حملوں کے زخم مجھے اپنے جسم پر محسوس ہوئے لیکن درد و کرب یہیں ختم نہیں ہوا۔ اس سے اگلے دن خبر آئی کہ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام پر حملے کی کوشش ناکام بنادی گئی اور حملہ آور نے گرفتاری سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو بارودی مواد سے اڑادیا۔ مکہ میں حملے کا زخم مجھے اپنی روح پر محسوس ہوا۔ گزشتہ سال رمضان میں مسجد نبویؐ پر حملے کی ناپاک کوشش کی گئی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ داعش کی طرف سے سعودی عرب میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاچکی ہے اور داعش نے ویڈیو بیانات میں سعودی عرب پر حملوں کااعلان بھی کیا تھا۔
کیا رمضان میں مسجد نبویؐ اور مسجد الحرام میں خونریزی کرنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہیں؟ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی کے ایمان پر انگلی اٹھائوں لیکن کیا قرآن ہمیں بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کی اجازت دیتا ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہم رمضان میں ایک دوسرے کا خون کیوں بہاتے رہے؟ کیا یہ صرف علماء کی ناکامی ہے؟ کیا یہ صرف حکومتوں کی ناکامی ہے؟ کیا یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اجتماعی ناکامی نہیں کہ وہ فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں اور اپنے اصلی دشمنوں کو خوش کررہے ہیں؟ کیا ہماری ان ناکامیوں پر اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوسکتا ہے؟ کیا یہ سوالات آپ کو مضطرب نہیں کرتے؟ اگر آپ بھی اضطراب کا شکار ہیں تو مایوس ہونے کی بجائے اس اضطراب کو اپنی طاقت بنائیے۔ عید پر فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر صرف مسلمان بن جائیں اور سب کو گلے لگائیں ہمار ا اتحاد ہی اضطراب سے نجات ہے۔

 

.

تازہ ترین