• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت پہلے سے اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دنیا ایک غیر معمولی تبدیلی کی زد میں ہے ۔ اس تبدیلی کا آغاز چند سال قبل ہوا تھا لیکن اب یہ تیزی سے عمل پذیر ہو رہی ہے ۔ پورا مشرق وسطی ، خلیجی ممالک اور جنوب مغربی ایشیا خاص طور پر اس تبدیلی کی زبردست لپیٹ میں ہیں ۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تبدیلی میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ۔ نہ صرف پاکستان عالمی اسٹیج پر اپنے دوستوں کی حمایت سے کسی حد تک محروم ہو رہا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف منظم انداز میں صف بندی ہو رہی ہے ۔ داخلی انتشار کی وجہ سے پاکستان اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی پہلے جیسی صلاحیت سے محروم ہو رہا ہے ۔ بہت دنوں کے بعد جمعہ کو ایک ساتھ کراچی، پارا چنار اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے جس میں 100سے زیادہ افراد شہید ہوگئے ۔ یہ واقعات صورتحال ظاہر کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کے پاکستان میں تعینات ناظم الامور مروان بن رضوان نے اسلام آباد میں جو پریس کانفرنس کی ، اسے معمول کی پریس کانفرنس نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ بہت دنوں کے بعد سعودی عر ب کے کسی سفارت کار نے اس طرح کا ایک پالیسی بیان دیا ہے ۔ اگرچہ انہوں نے سعودی قطر تنازع سے متعلق اپنی پالیسی کی وضاحت کی ہے لیکن عمومی طور پر سفارت کار ایسی پریس کانفرنس نہیں کرتے ۔سعودی ناظم الامور نے اس بات کی واضح انداز میں تردید کردی ہے کہ پاکستان سعودی عرب اور قطر کے مابین ثالثی کرارہا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے مقاصد کے حوالے سے بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے دورے کا مقصد کیا ہے ۔ سعودی ناظم الامور کے اس بیان سے وزیر اعظم پاکستان کی سبکی ہوئی ہے کیونکہ گزشتہ ہفتے جب وہ سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے تو پرائم منسٹر ہاؤس کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا تھا کہ ’’ وزیر اعظم پاکستان خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کے مابین ابھرتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں آج سعودی عرب کا دورہ کریں گے ۔ ‘‘ اس دورے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ پرائم منسٹر ہاؤس کے جاری کردہ بیان سے یہ تاثر ملا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سعودی عرب اور قطر کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں گے لیکن سعودی ناظم الامور نے اس بات کی تردید کردی ۔ البتہ انہوں نے کویت اور سوڈان کے کردار کو تسلیم کیا اور کہا کہ اب یہ دونوں ممالک ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ سال بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کرانے کے لئے اس طرح کی کوشش کی تھی ۔ اس پریس کانفرنس کے تناظر میں اب اس تبدیلی پر نظر ڈالنی چاہئے ، جو علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہو رہی ہے ۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس تبدیلی کے دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً خلیجی ممالک ، جنوبی اور جنوب مغربی ایشیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ خاص طور پر مسلم امہ مکمل طور پر تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے اس کی وجوہات کوئی بھی ہوں۔ مجھے آئندہ چند سالوں میں مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ خلیجی ملکوں کی ازسر نو سرحد بندی ہو سکتی ہے ۔ سعودی عرب میں نئے ولی عہد کی تعیناتی سے اس تبدیلی کے اثرات کی کسی حد تک نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔ولی عہد محمد بن سلمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران اور قطر کے بارے میں مختلف موقف رکھتے ہیں اور خلیج میں جو بحران طوفان کی شکل میں اٹھ رہا ہے ، اس سے نمٹنے کے لئے ان کی ترجیحات مختلف ہیں ۔ دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی میں امریکہ اور اس کے اتحادی سب سے زیادہ دباؤ میں ہیں اور وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یونی پولر ورلڈ کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دنیا میں طاقت کے نئے مراکز جنم لے رہے ہیں ۔ یہ بات انہیں پسند نہیں ہے ۔ امریکہ نے دنیائے عرب خصوصاً مشرق وسطی اور خلیجی ممالک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی جو پالیسی اپنے دوست ممالک کو دے رکھی ہے ، اس پالیسی کو پہلے بھی آزمایا جا چکا ہے اور اب اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی میں کمی نہیں ہو گی بلکہ اضافہ ہو گا یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ انتشار اور افرا تفری میں اضافہ ہو گا ۔ یہ خطہ پہلے ہی دو عشروں سے میدان جنگ بنا ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاکستان میں بھی جنگی محاذ کھلے ہوئے ہیں ۔ خلیجی ممالک کے بحران میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ایک دفعہ پھر بڑی جنگ کا میدان بنانے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔اس صورت حال میں پاکستان کا قائدانہ کردار بنتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی کردار ہی نہیں بن رہا ۔ ایسے وقت پر جب نئی دنیا تعمیر ہو رہی ہے اور نئے اتحاد بن رہے ہیں ، پاکستان اپنی پوزیشن ہی واضح نہیں کر سکا ہے کہ وہ آئندہ کس طرح سے اپنے ملک کی صف بند ی کرے گا۔ اس کی پالیسی دنیا کے ابھرتے ہوئے معاملات میں کیا ہے۔ ہماری نہ تو کوئی خارجہ پالیسی ہے اور نہ ہی کل وقتی وزیر خارجہ ہے ۔ ہم نہ صرف ایک ایٹمی طاقت ہیں بلکہ اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بڑا ملک کہتے ہیں اور بڑی طاقت قرار دیتے ہیں لیکن دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور مفادات کی عالمی جنگ میں جس بے بسی کے ساتھ لپیٹ میں آ رہے ہیں ، اس پر بحیثیت قوم ہم صرف افسوس ہی کر سکتے ہیں اور اپنی سلامتی اور اپنی دھرتی کے امن کے لئے دعائیں کر سکتے ہیں ۔سعودی عرب میں ہونے والی امریکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ، اس سے ہمیں اندازہ لگا لینا چاہئے کہ ہم علاقائی اور عالمی سیاست میں کس مقام پر کھڑے ہیں ایران سے بھی ہمارے تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں ۔ وہاں سے ڈرونز کے حملے ہو رہے ہیں ۔ افغانستان سے کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔ افغانستان کا آتش فشاں ایک بار پھر پھٹ سکتا ہے ۔ افغان حکومت کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں نے وہاں اپنے قدم جما لئے ہیں اور محفوظ ٹھکانے بنا لئے ہیں ۔ مزید اتحادی افواج بھی وہاں اترنے والی ہیں ۔ صورت حال تیزی سے خراب ہو رہی ہے ۔ اگر افغانستان کی صورت حال خراب ہوئی تو ہم بھی پہلے کی طرح اس کی لپیٹ میں ہوں گے اور افغانستان کے آتش فشاں کا لاوا پہلے کی طرح بہتا ہوا ہمارے شہروں ، دیہات ، پہاڑوں اور میدانوں میں پھیل سکتا ہے ۔چین اور روس اگرچہ پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی ( اسٹریٹجک ) اہمیت کے پیش نظر اس کے ساتھ مل کر نیا بلاک بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن وہ بھی بے یقینی کا شکار ہیں ۔بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشیں ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں ۔ اسی ہفتہ مودی اور ٹرمپ ملاقات خطہ اور خاص طور پر ہماری ہندوستان سے تعلقات کا تعین کرے گی۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان کے بارے میں سابقہ پالیسی کو تبدیل کرنے کے اشارے دے رہے ہیں ۔ دوسری طرف ہم داخلی انتشار کا شکار ہیں اور سیاسی بے یقینی نے معاملات کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے ۔ پاکستان کی قومی سیاسی قیادت اپنی سیاسی بقا ،داخلی انتشار اور Non-Issueکی سیاست میں الجھی ہوئی ہے ۔ مجھے ان حالات میں اچھی تصویر ابھرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ایسے میں پاکستان کے تمام ذمہ دار حلقوں کو اس صورت حال کا ادراک کرنا ہو گا اور ہنگامی بنیادوں پر اس صورت حال سے نکلنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے لیکن یہ اقدامات کرے گا کون ؟ اس وقت یہ بنیادی سوال ہے ۔ ہم تو صرف یہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں سوز و محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یا د نہیں
آئیے کہ عرض گزاریں کہ نگار ِہستی
تلخ امروز میں شیرینی فردا بھردے

 

.

تازہ ترین