• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید آئی خوشیاں لائی
پرانے لوگ کہا کرتے تھے عید بڑا دن خدا کا، گویا عید ہم ہی نہیں ہمارا رب بھی مناتا ہے، وہ اس طرح کہ ہماری خوشی میں وہ خوش ہے، اور ہماری خوشی سے مراد سب کی خوشی ہے، مطلب یہ برآمد ہوا کہ اگر ہم میں سے کوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ عید منا سکے تو اللہ کو خوش کرنے کے لئے کسی کو بے عید نہ رہنے دیں ورنہ پھر اللہ کی عید نہ ہو گی، ہماری عید کا ایک خاصہ ہے کہ خوشی کے اس بڑے موقع پر ہم اپنے جامے سے باہر نہیں نکل سکتے دوسروں کی عید متاثر نہ ہو یہی عید منانے کا عید اسٹائل ہے، ماحول کو خراب کرنے میں بڑا کردار زبان ادا کرتی ہے اور اسے خوشگوار بھی زبان ہی بنا سکتی ہے، اس لئے عید سے پہلے سب خواتین و حضرات اپنی زبان کا اچھی طرح میک اپ کر لیں تاکہ وہ اتنی دلکش ہو کہ ماحول باغ و بہار ہو جائے، دل توڑنے والی باتوں کو توڑنا اچھا؎
عید کے روز نہ چھیڑ قصۂ درد
وہ کسی اور دن سنا لینا
غریب زیادہ بھرپور عید منانے کا ہنر جانتے ہیں بس ان کو معمولی سی کمک درکار ہوتی ہے، کیونکہ وہ تھوڑے میں زیادہ خوشی حاصل کر لیتے ہیں، اور جن کے پاس سب کچھ ہوتا ہے وہ اس کے بارے فکر مند رہتے ہیں جو ان کے پاس نہیں ہوتا، خوشی کا مرکز دل ہے اور دل بچہ ہی رہتا ہے چاہے جسم بوڑھا کھوسٹ ہی کیوں نہ ہو جائے دل کے بچہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ بندہ کافر بھی ہو جائے دل مسلمان رہتا ہے کیونکہ دل تو بچہ ہے، عید کے دن رسم دنیا بھی ہوتی ہے موقع بھی ہوتا ہے دستور بھی اس پُر مسرت دن، حسن و عشق بہت فیاض ہو جاتے ہیں، مگر اس سے استفادہ ذرا دھیان سے کرنا پڑتا ہے، یہ دن پرانے ٹوٹے پھوٹے ’’بھانڈے‘‘ بھی چمکا کر ایسے دلکش بنا دیتا ہے، عید شباب آور ہے، حملہ آور نہیں، یہ عید کا کمال ہے کہ؎
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
چاند رات ہی سے جل اٹھتا ہے
٭٭٭٭
نادار مریضوں کی سنو
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے:عام آدمی کو طبی سہولتوں کی فراہمی تک چین سے نہیں بیٹھوں گا، خادم اعلیٰ پنجاب کے دل میں عام آدمی کا کتنا خیال ہے کیا عام غریب آدمی کے لئے یہ کیا کم ہے اور پھر ایسی صورت میں جبکہ وہ بیمار بھی ہو، اس وقت صوبہ بھر میں کتنے ہی ایسے مریض گھر میں پیوند بستر ہیں جن کے پاس علاج معالجے کے لئے پیسے نہیں، نہ جانے اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ خادم اعلیٰ کی نگاہِ کرم سے اوجھل ہیں، ایسا ہی ایک کیس کراچی سے بھی رپورٹ ہوا کہ ایک سیکورٹی گارڈ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا صاحب فروش ہے، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بیوی اردگرد بیٹھے ہیں، اتنی استطاعت نہیں کہ علاج کرا سکے، وہ سندھ کے خادم اعلیٰ کی آنکھ سے اوجھل ہے، عوام تمام وزرائے اعلیٰ کو وہ عینکیں لگوا دیں جن سے وہ عام غریب مریض ان کو نظر آ جائیں اور وہ موت کا انتظار کرنے سے چھٹکارا پا لیں، بہرحال ہمارے وزیر اعلیٰ یعنی خادم اعلیٰ پنجاب کی خدمات تو ضرب المثل ہیں، ایک ہیلپ لائن کھول دی جائے جس پر نادار مریض اطلاع دیں اور ایمبولینس گھر سے جائے معیاری علاج ہو، مریض شفایاب ہو تو وزیر اعلیٰ پنجاب مزید کامیاب ہوں، وہ ویسے تو ہر فریاد پر لبیک کہتے ہیں، لیکن پھر بھی کمی رہ جاتی ہے، غریب مریضوں کے لواحقین کو بھی کسی طرح سی ایم ہائوس میں اپنی فریاد پہنچا دینا چاہئے، روئے بغیر تو ماں بھی بچے کو دودھ نہیں دیتی، اس لئے غریبوں کو اب اپنے ہر مسئلے کے لئے اپنی آواز کی لے تیز کرنا ہو گی، اگر پھر بھی ان کا بھلا نہ ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں؎
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
٭٭٭٭
مرغی بجٹ
بجٹ تو آیا، گزر گیا، اگرچہ ’’بلائے بود دے بخیر گزشت‘‘ تاہم سستی مرغی کی نوید سنا گیا، اور عوام نے ٹھنڈی سانس لی کہ چلو مرغی تو ارزاں ملے گی، لیکن جب مرغی خریدنے گئے تو وہ 170,160سے 225، 250فی کلو گرام دستیاب تھی، اور یہ ہندسہ بدستور بڑھ رہا ہے، جناب اسحاق ڈار صاحب یا تو عوام کی دعائیں واپس کریں یا مرغی سستی کریں، اور اس میں ہرگز سستی نہ کریں، ہم دیگر اشیاء ضرورت کی بات نہیں کرتے بس ان کو بھی مرغی پر قیاس کر لیں، سارے چمن کا احوال معلوم ہو جائے گا، وزیراعظم نے لندن جا کر فرمایا ہے کہ ہمیں کہتے ہیں لوٹ کر کھا گئے حالانکہ لوٹے تو ہم گئے، اور یہ لوٹ ہمارے خاندان کے خلاف 1937ء سے شروع ہے، یہ وزیراعظم کو لوٹنے والے کون ہیں، بہرحال ہم تو ہر طرف عوام ہی کو دیکھتے ہیں انہوں نے ہی لوٹا ہو گا، اس لئے عوام سے درخواست ہے کہ وزیراعظم سے جو مال لوٹا ہے وہ واپس کریں، ہم تو صوبائی دارالحکومت کے بازاروں میں مہنگائی کی برق رفتاری کو دیکھ رہے ہیں باقی شہروں میں کیا حال ہو گا یہ تو وہاں کے بے حال ہی جانیں، بجٹ کے بعد بھی ایسی ترجیحات سامنے آئیں کہ مہنگائی کی سگائی، تباہی سے ہو گئی، بخدا ہم ہرگز حکومت پر تنقید نہیں کر رہے گزشتہ حکومتوں میں بھی یہی چال بے ڈھبی تھی جو اب بھی ہے، ٹھیک ہے حکمرانوں کے بقول معیشت مستحکم ہو گئی ہے، لیکن غریب آدمی مزید کمزور ہو گیا ہے، بہرحال عوام بھی تعاون کریں، حکمرانوں کا کوئی قصور نہیں جیسے مرغی کا کوئی قصور نہیں سیدھی بات یہ ہے کہ ہماری قسمت ہی خراب ہے اور ہم اسے ٹھیک نہیں کرنا چاہتے۔
٭٭٭٭
میں لٹی گئی جے!
....Oعمران خان:نواز شریف قوم کو جواب دے سکے نہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کو دستاویزات۔
وہ کہتے ہیں ہم سے تو اتنا کچھ لے لیا گیا ہے کہ ہم لٹ گئے، الٹا ہمیں ہی لٹیرا کہا جاتا ہے۔
....Oپاکستان میں پھر دو عیدیں،
لیکن پاکستان کا وزیراعظم تو ایک ہے!
....Oاسپیکر ایاز صادق کوریا روانہ ہو گئے،
کیا وہاں عید کا زیادہ لطف آتا ہے،
....Oبلاول زرداری عید کے بعد جنوبی پنجاب کا دورہ کریں گے،
اتنے دورے نہ کریں لوگ کہیں گے انہیں دورہ پڑ گیا،
....Oشہباز شریف:بعض سیاستدان ذاتی ایجنڈے کی خاطر عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
تو ان کے خلاف کارروائی کریں، حکومت شکایت نہیں کیا کرتی سنتی اور کارروائی کرتی ہے۔

 

.

تازہ ترین