• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اگست دوہزار سولہ کے آخری ہفتے کا ایک سرد ترین دن تھا۔میں نے مانچسٹر میں کاشف سجاد کی کتاب ’’پاکستان میری پہچان ‘‘ کی تقریب رونمائی کی صدارت کرنا تھی۔بابر اعوان اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔یہ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔ان دنوں بھی نون لیگ کی حکومت کے خاتمے کی پیش گوئیاں عروج پر تھیں۔ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے جلسے جاری تھے۔میں نےبابر اعوان سے اس سلسلے میں سوال کیا کہنے لگے ’’ابھی نہیں، شاید اگلے سال اسی مہینے میں نون لیگ کی حکومت ختم ہوجائے ‘‘ایک کالم نگار نے ابھی دو دن پہلے اپنے کالم میں لکھا ہے ’’ نواز شریف کےلئے ’’پارٹی از اوور ‘‘ کی آواز لگ چکی ہے ‘‘اسکرپٹ میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو جولائی آگست میں آخری رسومات ہونگی ‘‘ جیسے چند روز پہلے پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارتی کرکٹ ٹیم کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔
یہ بات اُس شخص نے لکھی ہے جسے وزیر اعظم نواز شریف کی خودنوشت لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔اس کی کتاب ’’غدار کون ‘‘کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے ’’نواز شریف کی کہانی اُن کی زبانی ‘‘یقیناً یہ لکھنے کےلئے صاحب ِ کتاب اور نواز شریف خاصا عرصہ اکٹھے رہے ہونگے۔دونوں میں گہرا تعلق ہوگا۔نواز شریف کو اس پر بہت زیادہ اعتبار ہوگا اور یقیناً ہے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پیش گوئی انکی مرضی کے بغیر کی گئی ہے۔ثبوت کےلئے عطاءالحق قاسمی کا کالم ’’الجھی ہوئی کہانی سلجھ کر سامنے آنے والی ہے ‘‘ کافی ہے۔اس پیش گوئی کے دوسرے جملے کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ’’اسکرپٹ میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو ‘‘یعنی جو کچھ ابھی ہورہا ہے یہ سب کسی اسکرپٹ کا حصہ ہے۔یعنی کیا فیصلہ اسی اسکرپٹ کے تحت کیا جائے گا۔یہ توہین ِ عدالت ہے۔وقت آنے پر لکھنے والے کواس کی وضاحت کرنا ہوگی۔نون لیگ کے رہنمائوں کی زبانی دہشت گردی تو پہلے سے جاری ہے اور جے آئی ٹی پر ابلاغی اور غیر ابلاغی خودکش حملے کا ہر لمحہ امکان ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اسکرپٹ ہے یعنی کوئی سازش ہے تو اس کے پیچھے کون ہے۔تحریک انصاف پر سازش کا الزام اس لئے نہیں لگایا جا سکتا کہ پانامہ کے کیس میں وہ تو مدعی ہے اور کھلم کھلا کہہ رہی ہے کہ وزیر اعظم کی نشست پر کوئی اجنبی جلوہ گر ہے۔رحمٰن ملک کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے باوجودپیپلز پارٹی پر اِس سازش کا الزام اِس لئے بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ اُس پر تو خودسابق صدر آصف علی زرداری خودکش حملہ کر چکے ہیں۔وہاں اب کیا باقی رہ گیا۔سیاست کا ایک تابوت۔اُس کےتابوت میں ایک مضبوط کیل ابھی ابھی بابر اعوان نےٹھونکی ہے۔میرے خیال میں بابر اعوان کی تحریک انصاف میں شمولیت تحریک انصاف کےلئے بہت اہم بات ہے۔میں پاکستانی سیاست میں بدلتے ہوئے ملکی معاملات پر ان کی گہری نظر کابہت قائل ہوں۔مجھے لگ رہا ہے کہ اقتدار کا پرندہ ’’ہما‘‘ عمران خان کے کاندھے پر بیٹھنے والا ہے۔میں بابر اعوان کی تحریک انصاف میں شمولیت پر عمران خان کومبارک باد پیش کرتا ہوں۔ہاں تو بات ہورہی تھی اسکرپٹ کی جس کے اصطلاحی معنی ’’سازش‘‘ کے ہیں۔یہ جس اسکرپٹ کی بات وزیر اعظم نواز شریف کے سوانح نگار نے کی ہے اُس کا اشارہ یقیناً عسکری اداروں کی طرف ہے۔عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’نواز شریف سمجھتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ ان کے خلاف سازش کررہے ہیں ‘‘جہاں تک میں دیکھتا ہوں جب سے جنرل قمر جاوید باجوہ نےافواج ِ پاکستان کی کمان سنبھالی ہے اُس نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس سے کہیں یہ محسوس ہوکہ موجودہ حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں۔ بے شک ڈان لیکس کے معاملہ میں حکومت اور فوج میں کچھ اختلافات ہوئے تھے مگر انہیں بڑی خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا تھا۔ایسی صورت میں کسی سازش کا الزام یقیناً ان حلقوں کےلئے بھی تکلیف کا باعث ہوگا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے افواج پاکستان کومشرقی اور شمالی گرم محاذوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ تک محدود کر رکھا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ افواج پاکستان کا کام صرف ملک کا دفاع ہے۔سو وہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف صف آرا ہیں۔
جہاں تک عدالت کے فیصلے کا تعلق ہے تو اُسےجمہوریت کے خلاف سازش کیسے قرار دیا جا سکتا۔اگر وزیر اعظم نا اہل ہو بھی گئے تو شہباز شریف یا مریم شریف وزیر اعظم بن جائیں گے۔حمزہ شریف تو ایم این اے بھی ہیں وہ فوری طور پر وزیر اعظم کا حلف اٹھا سکتے ہیں۔جمہوریت چلتی رہے گی۔ایسے حالات میں نواز شریف کے سوانح نگار کا حکومت کے ختم ہوجانے کی پیش گوئی کرنا یاکسی نگران حکومت میں آئینی ترمیم اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمہ کی گفتگو کرنا میرے لئے حیرت انگیز ہے۔اس پیش گوئی پر ایک تبصرہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ خود حکومت کی طرف سے ایسی پیش گوئیاں دراصل سپریم کورٹ کے جج صاحباں پر اثرانداز ہونے کی ایک خاموش کوشش ہے کہ انہیں اس بات کا خوف دلایا جائے کہ اگر سپریم کورٹ نے انصاف کیا تو یہ جمہوریت کے خاتمے کا سبب ہوگا۔
نون لیگ کے رہنما توایک عرصہ سے پانامہ کیس کو نواز شریف کے خلاف سازش قرار دیتے چلے آرہے ہیں۔عابد شیر علی، دانیال عزیز اور طلال چوہدری تو تقریباً روزانہ ہی لفظ بدل بدل کر یہی بات کرتے ہیں مگر معاملہ صرف توہینِ عدالت تک ہی محدود رہا ہے۔اس الزام کے جواب میں عمران خان نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ اگر یہ کوئی سازش ہے تو ہم نے نہیں یہ پانامہ لیکس والوں نے کی ہے۔جس میں نواز شریف کے علاوہ ہزاروں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ان میں جو صاحبان اقتدار تھے وہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہوچکے ہیں۔
آج پھرپاکستان کے بدن پر کچھ نئے زخم لگائے گئے ہیں۔ایک بار پھرپارہ چنار، کوئٹہ اور کراچی دہشت گردوں کے وار سے لہو لہو ہیں۔آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ’’ اس دہشت گردی کا تعلق سر حد پار سے ہے ‘‘۔یہ ممکن ہے کہ اگلے دو چار دنوں میں مشرقی محاذ پھر سے گرم ہوجائے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب بھی نواز شریف کی حکومت کےلئے مسائل بڑھتے ہیں تو پاکستان میں دہشت گردی اوربھارت کی طرف سے سرحدوں پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت اِس پورےخطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔لیکن میرا خیال اس کے برعکس ہے میرے نزدیک کرکٹ میچ میں پاکستان کی فتح پر جو سری نگر میں جشن منایا گیا تھا اورجو میر واعظ نےعید سے پہلے عید منانے کا اعلان کیا تھا یہ پاکستان کو اُس عیدکا جواب دیا گیا ہے۔

 

.

تازہ ترین