• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھر دو عیدیں کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی

ایک ساتھ آغاز رمضان سے یہ قوی امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب کی بار عید بھی اگر ایک دن ہوجائے تو خوشیاں دوبالا ہوجائیں گی۔ امید اس لحاظ سے بھی تھی کہ ماہ شعبان تیس (30)دنوں کا تھا۔ اور رمضان ہوسکتا ہے کہ انتیس دنوں کا ہو اور اس طرح ہم برطانیہ و یورپ مڈل ایسٹ میں ایک ساتھ عید مناسکیں گے۔ بلکہ میرے کالم ’’کھلا تضاد‘‘ جو 31مئی کو شائع ہوا تھا میں میں نے پیش گوئی کردی تھی کہ چانسز تو یہی لگتے ہیں اور اتوار کی وجہ سے مزید امکانات روشن ہیں کہ عید 25جون اتوار کو ہوجائیگی۔ لیکن کمیونٹی کی تشویش اس وقت مزید گہری ہوگئی اور اضطراب بڑھ گیا جب سعودی عرب نے 25جون بروز اتوار کو عید الفطر منانے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف بریلوی مکتبہ فکر نے نماز مغرب تک اعلان کرنے کا کہا کہ ہم برطانیہ کے نزدیک ترین ملک مراکش یا سائوتھ افریقہ جہاں پر مطلع صاف و شفاف ہوتا ہے شہادتیں ملنے پر عید کا اعلان کردیں گے۔ اگر شہادتیں نہ ملیں تو 30تیس روزے پورے کرکے بروز پیر 26جون کو عید الفطر منانے کا اعلان کر دیں گے۔ اس پر سنت الجماعت کی قیادت متفق تھی۔ پتا نہیں کیوں آج قائد تحریک ناموس رسالت حضرت پیر علائوالدین صدیقیؒ اور سنی کنفیڈریشن آف مساجد کے سرپرست اعلیٰ مولانا بوستان القادری کی یاد بار بار کیوں ستاتی ہے ان دونوں شخصیات کی موجودگی میں کم از کم سنت الجماعت بریلوی مکتبہ فکر کے اندر ایک زبردست اتحاد پایا جاتا تھا۔ مفتی اعظم برطانیہ مفتی گل رحمٰن قادری کی کاوشیں بھی ان شخصیات کے ساتھ کسی سے کم نہیں ہیں۔ علامہ ظفر اللہ شاہ بھی اپنی رائے میں وزن رکھتے ہیں۔ دیگر شخصیات برٹش مسلم فورم سمیت اگر سب کے سب آپس میں باہمی اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرتے ایک دوسرے کی رائے اور ادب و احترام کے ساتھ قبول کرتے تو دو عیدوں کی وجہ سے سنت الجماعت کے متعلق کمیونٹی کے اندر تشویش پیدا ہوئی وہ ہرگز نہ ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ برطانیہ و یورپ کے لیول پر ایک بڑے اجتہاد کی ضرورت ہے تاکہ مشترکہ طور پر میمورنڈم تیار کیا جاسکے جس میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا لائحہ عمل طے ہوسکے کہ آئندہ آغاز رمضان اور عیدین کا مسئلہ ہی حل ہوجائے۔ آج دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے ہم ہیں کہ چاند نظرہی نہیں آرہا۔ امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلویؒ کے فتویٰ روضیہ کے مطابق اہل مشرق رویت ہلال کی خبر مستفیض ہونے پر اہل مغرب عید مناسکتے ہیں، رمضان کا آغاز کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ شہادتیں قوی ہوں۔ اس طرح تو مسئلہ ہی حل ہوجاتا ہے۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے ایک جانب دنیا کی عدالتوں میں ویڈیو لنک کے ذریعے شہادتیں، گوائیاں قبول کی جارہی ہیں حتیٰ کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں حجاب و قبول بھی ہورہا ہے تو اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند کی شہادتوں پر اختلاف کیوں۔بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سعودی عرب، مراکش یا پھر سائوتھ افریقہ میں بیٹھے حضرات کی وڈیو لنک کے ذریعے انکی زبان سے دیگر گوائیوں کی موجودگی میں نہ صرف شہادتیں بلکہ اردگرد کا ماحول ایریا اور موسم کی صورتحال دیکھی جاسکتی ہے اس سے فیصلے میں آسانی بھی ہوجائیگی اور اتحاد امت کے اسباب بھی پیدا ہوں گے۔ عید کے مسئلہ پر اب زیادہ دیر تک ٹال مٹول سے کام نہیں لیا جاسکتا چونکہ پارکوں اور کھلے میدانوں میں نماز عید کے اجتماعات میں ہرسال پہلے کی نسبت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ دیگر مقامات پر بھی لوگ پارکوں میں اہتمام کرتے پائے گئے ہیں اور کھلے آسمان تلے صرف مردحضرات ہی نہیں جاتے بلکہ خواتین بچے بھی ہمراہ ہوتے ہیں۔ دیگر کمیونٹیز کے افراد بھی بطور یکجہتی دیکھے گئے ہیں اس کے بعد کھانوں کے فری سٹالز اور بچوں کے فن فیئر جھولے وغیرہ سے بچے حقیقی معنوں میں نماز عید کے بعد عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ برمنگھم میں پچیس جون کو عیدالفطر نماز کا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ضد، ہٹ دھرمی جاری رہتی تو مزید پارکوں میں اجتماعات دیکھنے کو ملتے۔ا بھی بھی وقت ہے سنت الجماعت کے تمام گروپس کو آپس میں بیٹھ کر مستقل فیصلہ کرنا ہوگا۔ وگرنہ ریت کے ذرات تھیلی سے سرکتے جارہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نئے چہرے جنہوں نے نماز تراویح سنت الجماعت کی مساجد میں باجماعت ادا کی اور نماز عید سمال ہیتھ پارک میں ادا کرتے نظرآئے۔ کمیونٹی کے اندر ایک گہری تشویش اور اضطراب پایا جاتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ ہونا چاہئے بلکہ بعض مقامات پر لوگ علماء اکرام سے الجھتے نظر آئے کہ نائجریا کا چاند قبول اور سعودی عرب کا چاند نامنظور کیوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ قیادت وسیع تر امت کے اتحاد کی خاطر ذاتی مفاد گروپس سے بالا تر ہوکر شریعت کے مطابق ایک متفقہ فیصلہ کرلے کم از کم برطانیہ و یورپ کی سطح پر ایک ہی روز عید ہوسکے۔ جوں جوں تاخیر ہوتی جائےگی مزید پارک اور کھلے میدان آباد ہوتے جائیں گے۔

تازہ ترین