• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو ملکوں کے لیڈر جب ایک دوسرے سے مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں تو اسے دونوں ملکوں، متعلقہ جغرافیائی خطوں اور دنیا بھر کے لوگوں کیلئے اچھے پیغام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پیر کے روز واشنگٹن کے قصر صدارت (وائٹ ہائوس) میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے زوردار معانقہ کیا تو بہت سے لوگوں کو امید بندھی کہ اس ملاقات سے کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا بھر کے مظلوم اور مجبور انسانوں کیلئے کوئی کلمہ خیر سامنے آئے گا۔ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کی نشاندہی کی توقعات بھی بے محل نہیں تھیں مگر اس ملاقات کا جو نتیجہ برآمد ہوا، اچھا ہوتا کہ اس میں دہشت گرد تنظیموں اور ان کو تحریک دینے والے انتہا پسند نظریے کو ختم کرنے کی بات کو کسی خاص مذہب کے پیروکاروں کیلئے مخصوص نہ کیا جاتا۔ کیونکہ انتہا پسندی خواہ کسی مذہب یا زبان یا رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کے قتل و غارت کا سبب بنے یا کوئی اور روپ دھار کر سامنے آئے، وہ انتہا پسندی ہی ہے۔ اس کے سدباب کے لئے سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ مودی ٹرمپ ملاقات میں ’’ریڈیکل اسلامک ٹیرر ازم‘‘ کی اصطلاح کے استعمال سے بعض حلقے یہ مفہوم اخذ کرنے پر یکسر غلط نہیں کہے جاسکتے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا دائرۂ کار محدود کر دیا گیا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل کرانے والے جس نریندر مودی کا ایک زمانے میں امریکہ میں داخلہ ممنوع قرار پایا تھا اور جس نے پچھلے ایک برس سے مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں کے قتل و غارت سمیت مظالم کی انتہا کر رکھی ہے، وائٹ ہائوس میں اس کی پذیرائی کا انداز دیکھ کر اعلیٰ انسانی اقدارپر یقین رکھنے والے حلقے حیرت سے گنگ ہیں۔ جو لوگ انڈیا کی قدیم تاریخ اور دوستی کے پردے میں دشمنی کے چانکیائی سیاسی نظریات کی شدھ بدھ رکھتے ہیں، مذکورہ فلسفے کے حامل نریندر مودی کی گرمجوشی دیکھ کر ان کے ذہن میں شیواجی کے افضل خان سے کئے گئے اس معانقے کی یادتازہ ہوگئی ہوگی جس سے’’ بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کا محاورہ نکلا ہے۔ دونوں لیڈروں کی مشترکہ پریس کانفرنس، وائٹ ہائوس سے جاری ہونے والے بیان اور دیگر تفصیلات سے نریندر مودی کے دورہـ ٔامریکہ کے جو نتائج سامنے آئے ان میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بھارت کو 366ملین ڈالر مالیت کے مال بردار جہازوں اور 20ڈرونز کی فروخت کے معاہدوں کی توثیق بھی شامل ہے۔ صدر ٹرمپ نے نئی دہلی پر قبل ازیں پیرس کے ماحولیاتی معاہدے سے مالی فائدہ اٹھانے کے جو الزامات عائد کئے اور بھارت نے امریکہ میں ملازمت کرنیوالے بھارتی سافٹ ویئر انجینئروں کی ویزا پالیسی پر نظرثانی کے حوالے سے جو تشویش ظاہر کی اس سمیت کئی امور پر بند کمرے کے اجلاس میں غوروخوض ہوا ہوگا۔ مگر جو باتیں سامنے آئیں ان میں کشمیری لیڈر سید صلاح الدین کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں درج کرنے کا امریکی اعلان اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانے کا حقیقت سے بعید مطالبہ بھی شامل ہے کہ اس کی سرزمین دوسرے ممالک پر حملوں کے لئے استعمال نہیں کی جائے گی۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف مخلصانہ جدوجہد میں امریکہ سمیت دنیا کے ہر ملک سے زیادہ جانی و مالی قربانیاں دیں۔ جبکہ کلبھوشن یادیو سمیت متعدد بھارتی ایجنٹوں کی پاکستان میں گرفتاری کی صورت میں بھارت کا دہشت گردانہ کردار دنیا کے سامنے ہے۔ کشمیری لیڈر سیدصلاح الدین کو اقوام متحدہ کی قراردادیں متنازع علاقے کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کا حق دیتی ہیں جبکہ پاکستان تنازع کشمیر کے فریق کی حیثیت سے کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت کا پابند ہے۔ بھارت کی وسیع تجارتی منڈی پرکشش سہی، امریکہ جیسی سپر پاور سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھارت کو اپنا حق خود ارادیت مانگنے والے کشمیریوں پر مظالم سے روکے گی اور امریکی دوستی کی خاطر نقصانات اٹھانے والے پاکستان سے ایسے مطالبات نہیں کرے گی جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔

 

.

تازہ ترین