• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتنے زیادہ موضوعات ہیں کہ ہر موضوع پر دم نکلے۔ سب سے اہم تو کمزور جمہوریت کے خلاف طاقتوروں کے خفیہ اور واضح اشارات و معاملات ہیں جو نام نہاد کرپشن کے نام پر خطرناک موڑ مڑتے قومی سیاست کو بحران کی طرف کامیابی سے دھکیل رہے ہیں۔ جن ’’اعلیٰ‘‘ مقاصد کا حصول دھرنوں سے نہیں ہو سکا چائے کی پیالی میں وہ طوفان کسی اور کے وسیلے سے اٹھایا جا رہا ہے۔ پورا مہینہ ہمیں صبر اور برداشت کی ٹریننگ دے کر رخصت ہوا۔ یہ الگ بحث ہے کہ مہینے بھر کی تربیتی مشق کے بعد ہماری قوم میں مجموعی طور پر رواداری، صبر اور برداشت کی ریشو کتنے فیصد بڑھی ہے؟ نہیں بڑھی تو اس قومی تربیتی مشق یا مشقت میں کون سی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہے؟ اس پر بحث اگلے رمضان شریف کے آغاز پر کریں گے اس وقت تو صرف اتنا ہی۔
خیال تھا کہ اس مرتبہ عید دہری خوشیاں لے کر آئی ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ میں ہمارے بچے بڑی کامیابی کے ساتھ لوٹے ہیں۔ اس پر ایک کالم لکھنے کا ارادہ تھا کہ ’’عید سے پہلے عید‘‘۔ خوشی کیوں نہ ہو کہ ہم نے یہ معرکہ انڈیا سے مقابلہ کرتے ہوئے سر کیا ہے بلکہ زیادہ واضح لفظوں میں ہم نے غرور کا سر نیچے کیا ہے مگر ہمیں رائے عامہ سے ایک اختلاف ہے یہ کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں اور اسے جنگ یا زندگی موت کا مسئلہ نہ بنائیں۔ جیت اُسی کی ہونی چاہئے جو محنت، لگن، سنجیدگی اور اعتماد کے ساتھ کھیلتا ہے۔ انڈین کھلاڑی بھی ہمارے بچوں جیسے ہیں اگر وہ اچھا کھیلتے ہیں تو جیت اُن کی ہونی چاہئے اور اگر وہ بُرا کھیلتے ہیں تو لازمی بات ہے شکست اُن کا مقدر بنے گی۔ اس میں غصے اور ناراضی والی کون سی بات ہے؟ شکست پر اُن کے آنسو بہتے دیکھ کر اگر پاکستانی انہیں ٹشو پیش کرتے ہیں تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں ہے یہ اظہارِ ہمدردی یا حق ہمسائیگی ہے البتہ اس میں تضحیک کا پہلو نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے انڈین صحافی دوستوں کو بھی چاہئے کہ وہ بات بے بات قومی تفاخر یا غرور و تکبر نہ دکھایا کریں اُن کے باپو گاندھی جی تو ایسے نہیں تھے،اُن کے اعلیٰ آدرشوں کی کچھ تو لاج رکھیں۔
اگر ہماری ٹیم نے 180 رنز کی اتنی خوبصورت فتح حاصل کی ہے تو قوم نے بھی اُن کی عزت افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے وزیراعظم نواز شریف 5 جولائی کو انہیں وزیراعظم ہاؤس بلا کر ایک ایک کروڑ کا چیک پیش کرنے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے انعام و اکرام اُن پر برس رہے ہیں۔ امید ہے کہ ہماری قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان اس سرفرازی پر خود کو کھلاڑی ہی سمجھے گا وزیراعظم خیال کرنے نہیں لگ جائے گا۔ بلاشبہ سیاست ہر پاکستانی کا حق ہے لیکن کھیل کی طرح ہر شعبے کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ فاؤل پلے کسی بھی شعبے میں ہو، غلط ہے۔ اگر آپ اقتدار کے حریص ہیں تو پھر بھی دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے تہذیبی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے آگے بڑھیے شارٹ کٹ مت ڈھونڈیئے اور یاد رکھئے کہ سیاسی جدوجہد اُس عشق اور لگن کی طرح ہے جس میں تمنا جتنی بھی بے تاب ہو صبر و استقلال کا دامن چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی ورنہ اس کی قیمت ملک و قوم اور آنے والی نسلوں کو چکانی پڑتی ہے سیدھی سی بات ہے کہ آپ الزام تراشیوں کی بجائے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی جدوجہد کیجئے غیر سیاسی لوگوں کی انگلیوں پر ناچنے سے پرہیز کیجیے،۔۔That is the complaint only بات عید سے پہلے عید کی ہو رہی تھی عید تو نام ہی خوشیوں کے حصول کا ہے ہماری آرزو ہے کہ پروردگار پوری قوم کو بھرپور خوشیاں اور مسرتیں عطا فرمائے لیکن آج ہماری قوم کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں جو زخم لگ رہے ہیں انہیں دیکھیں تو ہونٹوں پر مسکراہٹ کی بجائے آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ جس کے آنگن میں بھیانک موت ناچ رہی ہو وہ پھولوں کی آبیاری کیسے کر سکتا ہے۔
وطن ِ عزیز میں عین جمعۃ الوداع کے روز دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے اموات کے تحفے بانٹے ہیں۔ پارا چنار، کوئٹہ اور کراچی کے خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں 62انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ150سے زائد افراد ذخمی بھی ہوئے ہیں شہید ہونے والوں میں 11پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی پارا چنار میں ہوئی ہے جہاں معروف بازار میں لوگ عید کیلئے خریداری کر رہے تھے اور 2دھماکوں میں 45افراد لقمہ اجل بنا دیئے گئے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ پاراچنار سانحہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے تو کراچی کے سانحہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔
پھر عید سے عین ایک روز قبل بہاولپور کے قریب آئل ٹینکر کا سانحہ....الامان، الحفیظ۔
دہشت گردی پر مدینہ منورہ سے وزیراعظم نواز شریف کا بیان آیا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا بہیمانہ اقدام ہے اس نوع کے تعزیتی بیانات تو چاروں اطراف سے آئیں گے مگر دہشت گردی کا یہ واقعہ آخری نہیں رہے گا بظاہر وزیراعظم کے یہ الفاظ بہت اچھے ہیں کہ ’’ظالمانہ حملے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی مایوسی کا اشارہ ہیں ‘‘ لیکن درحقیقت انتہاپسند ہرگز مایوس نہیں ہیں وہ تو آپریشنز کے باوجود نئے عزائم کے ساتھ انسانوں کو خون میں نہلا رہے ہیں قوم کے پہلے زخم بھرتے نہیں ہیں کہ نئے لگا دیئے جاتے ہیں اُن کے لئے چار حرام مہینوں کا احترام ہے نہ رمضان شریف کے جمعۃ المبارک اور لیلۃ القدر کا۔ لہٰذا ہماری اپنی قومی سیاسی قیادت اور میڈیا دانش کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس بنیادی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان، بھارت، ایران، عراق، شام اور یورپ تک ہمارے کلمہ گو بھائیوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی اب خدارا کم از کم ایک مرتبہ اپنا تنقیدی و احتسابی جائزہ لے لیں کہ کیا اس تمام تر خونریزی کے پیچھے نظریہ جبر تو کارفرما نہیں ہے؟
ہم نے بحیثیت مولوی اور ریٹائر مولوی اس ایشو پر برسوں غور کیا اور ہر ہر اینگل سے اس کا جائزہ لیا تو ہم پر یہ عقدہ یا گرہ محض اس نکتے پروا ہوئی کہ اگر آپ نے سوسائٹی سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو نظریہ جبر پر استوار سوچ کی بیخ کنی کر دو ہر انسان کو تب تک کے لئے مقدس و محترم مان لو جب تک کہ وہ دوسرے کے آڑے نہیں آتا۔ ریاست کے لئے یہ سوچ زہر ِ ہلا مل ہے اگر وہ اپنے شہریوں کے درمیان مذہبی، نسلی، جنسی یا لسانی بنیادوں پر امتیاز کرے اگر آپ نے کسی نہ کسی مقدس جذبے کے تحت ایسی ظالمانہ سوچ کی کوئی پاکٹ رکھنی ہے تو پھر مت بھولیں یہ بربادی آپ کا ہمارا مقدر رہے گی۔

 

.

تازہ ترین