• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتیاط! خوشی غم سنگ سنگ
غم اور خوشی ساتھ ساتھ ہیں مگر اشرف المخلوقات کو ان میں انتخاب کا اختیار حاصل ہے، بعض اوقات خوشی کے حصول میں عقل کا دامن چھوڑنے سے شادی مرگ ہو جاتی ہے، آئل ٹینکر کے المناک حادثے میں بھی کسی کو قریب بھی نہیں آنا چاہئے تھا لیکن جب پوری بستی تیل لوٹنے گھر کے برتن لے کر آ گئی تو یہ ایک آگ اور خون کا کھیل بن گیا، اگر احتیاط برتی جاتی تو اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع نہ ہوتیں، عید کے چاند پر تو کوئی خون کا دھبہ نہ تھا، مگر مصیبت کو دعوت دینے کا تو کوئی علاج نہیں، تعلیم و تربیت عام ہوتی تو آگ اور پانی میں فرق کو سمجھا جاتا، غربت جہالت اور حکومتی کوتاہی یہ تین اسباب بہت سی آفات کا باعث بنتے ہیں، ہر بات کہنے اور ہر کام کرنے سے پہلے تھوڑا سا غور کر لینا زندگی کو محفوظ کرتا ہے، ہمارے ہاں لوٹ مار بھی مزاج کا حصہ بن چکی ہے، ہمارا دین کسی کے کھیت سے خلال کے لئے تنکا توڑنے کو بھی چوری قرار دیتا ہے، یہ بہتا ہوا تیل کسی کمپنی کی ملکیت تھا، جس میں ایک قطرہ بھی لینا جرم تھا، ہم گزارش کریں گے کہ تعلیم اور تربیت کو عام کیا جائے۔
سانحہ پارا چنار کی تہہ میں اتریں تو آپ کو اپنے ہی لوگ قاتل ملیں گے، ہمارے کسی دشمن نے کبھی بہ نفس نفیس آ کر ہماری سرزمین پر دہشتگردی نہیں کی البتہ کرائی ضرور ہے، مگر آلۂ کار تو ہم ہی بنے ، فرد قانون اپنے ہاتھ میں لے کر نیکی کرنے کا بھی مجاز نہیں، کسی کو اپنے طور پر واجب القتل کیسے قرار دے سکتا ہے، یہ درست ہے کہ بظاہر ہمیں یوں لگتا ہے کہ جو نقصان ہمیں پہنچا اس میں ہمارا کوئی قصور نہ تھا، لیکن حقیقت یہ بتاتی ہے ہمارا دور نزدیک، بلاواسطہ بالواسطہ اس میں عمل دخل ضرور ہوتا ہے، دہشت گردی کے خلاف ہماری فوج لڑ رہی ہے، ہمارے سارے قانون نافذ کرنے والے ادارے لڑ رہے ہیں مگر دہشت گردی جو اب تقریباً روزانہ کا معمول بن چکا ہے اس کے خلاف ہم من حیث القوم میدان میں نہیں اترے، اگر 20کروڑ افراد کی آنکھیں جاگ رہی ہوں تو چور چوری نہیں کرسکتا۔ اپنی ذمہ داریوں نے ہمیں یہ دن دکھایا کہیں ہم ہلاکت کو شہادت تو نہیں سمجھ بیٹھے۔
٭٭٭٭
سوگواری نہیں بیداری!
کوئی غیور، فعال، بیدار پڑھی لکھی قوم بہت کم سوگوار ہوتی ہے، پشتو کی ایک مثل ہے ’’جس کی عقل کم ہے اس کے گھر سدا جنگ ہے‘‘ لگتا ہے ہم نے من حث القوم معقولیت کو خیر باد کہہ دیا، بس ایک ہی بات سیکھی ہے کہ ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ بھی عزیز نہیں، کاش یہ مفاد انفرادی سے اجتماعی ہو گیا ہوتا، تو آج دنیا کے ہر خطے میں مسلمان پر اتنے ستم ہوتے نہ انہیں کوئی غم ہوتا، جاگنا ہو گا، ہم نے قوم جگائو ترانے بہت گا لئے، اب آنکھ کھول کر بھی دیکھنا چاہئے کہ ریورس لگا کر ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور دوسری قومیں ٹاپ گیئر میں کس بلندی کو چھو رہی ہیں، ہمیں صدموں پر رونا ایک دم آ جاتا ہے، خدا کا خوف کرتے ہوئے کبھی اپنے کرتوتوں پر رونا نہیں آیا، ہر شخص دوسرے کو عبرت پکڑنے کی دھمکی دیتا ہے خود عبرت حاصل نہیں کرتا، غربت کا رونا ہر کوئی روتا ہے محنت کرنے سے ہر ایک جان چھڑاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے حکمران ٹھیک نہیں ہمیں غریب بنا دیا تو ان کو حکمران کیوں بنایا تھا اس طرف دھیان نہیں جاتا، کاش ہم باد صبا ہوتے تو کم از کم یہ کہنے والے تو بنتے ’’اے باد صبا! ایں ہمہ آوردہِ تست‘‘ (اے باد صبا! یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے) جو ہم پر ستم ڈھاتے ہیں وہ ایک بات کرتے ہیں سو کام کرتے ہیں اور ہم خود ستم زدگان سو باتیں بناتے اور ایک کام بھی نہیں کرتے پھر بڑی بڑی مہذب قوموں کے گلے کیوں کرتے ہیں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہم تھے ٹرمپ نے جپھا مودی کو مارا، اور ہم جب بھی اس کے قرب گئے اس نے ڈرون مارا، ہم نے کہا؎
بزم ’’وائٹ ہائوس‘‘ چاہئے ’’مودی‘‘ سے تہی
سن کے ستم گر ٹرمپ نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
٭٭٭٭
کھلونا بم سمجھ کے تم مرا دل توڑ دیتے ہو
پیار محبت عشق وغیرہ کرنا سب کا بنیادی حق ہے، مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس سے انسان کی بنیادیں کیوں ہل جاتی ہیں، کچھ لوگ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مجازی نہیں حقیقی عشق کرو اس میں محبوب نظر نہیں آتا دل ٹوٹنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں، اب یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ زمینی عشق ایک زمینی حقیقت ہے اور اس میں چونکہ قصہ زمین برسرزمین والا منظر ہوتا ہے اسی لئے تو؎
محبوبہ دا در نئیں چھڈ دے
بھانوے پین سو سو جتے
عاشق لوگ اُتے ای اُتے
عشق کو تو مالک نے اس لئے پیدا کیا تھا کہ یہ مورکھ آپس میں لڑیں نہیں پیار کریں، بعض بے ہنر لوگوں نے بڑی کوشش کے باوجود جب گرائونڈ ریلٹی عشق میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی تو وہ آنکھیں بند کر کے گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر یہ ورد پکانے لگے؎
دل لالیا بے پروا دے نال
بے پروا نے پھر اسے گرائونڈ کیا اور کہا؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
مگر نادان کو پھر بھی سمجھ نہیں آئی اور لگا ہر بات پر آسمان کو دیکھنے، مگر پھر بھی یہ زمین پر موجود انسانوں سے جیتی جاگتی محبت کرنے کی طرف نہ آیا۔ یہ دھرتی عشق کے لئے بنائی گئی ہے، مگر بعض نااہل ایکٹر سیٹ سے بھاگ بھاگ جاتے ہیں ۔
٭٭٭٭
خوشی دو گھڑی کی
....Oخبر نگار:عید، پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔
اس لئے سب مل کر پڑھو انا للہ وانا الیہ راجعون
....Oسراج الحق امیر جماعت اسلامی نے عید کے پیغام میں فرمایا! قوم ایک بار پھر تحریک پاکستان کا جذبہ لے کر اٹھے۔
سارے کام قوم سے لینا ہیں یا خود بھی کچھ کرنا ہے؟
....Oافغان بھارت دوستی ڈیم پر حملہ،
یہ ڈیم ہو گا تو حملے کم نہ ہوں گے!
....Oکوہلو سے بڑی مقدار میں اسلحہ گولہ بارود برآمد،
کہیں کوئی سوراخ ضرور ہے!
....Oلندن سے خبر ہے:تحقیق کے مطابق انٹرویو میں سچ بولنے والے ملازمت حاصل کر لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں سے خبر ہے:انٹرویو کے بجائے سفارش لانے والے ملازمت حاصل کر لیتے ہیں ۔
....Oعید آئی کنٹرولڈ خوشی دے کر چلی گئی۔

 

.

تازہ ترین