• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالبا ً یہ سات جولائی 2006کی بات ہے۔ میں قومی شاہراہ پرکار چلا تا ہوا اسلام آبا د سے ایک نوکری چھوڑ کر ہنسی خوشی اپنے شہر کراچی لوٹ رہا تھا۔میرے دیرینہ فوٹو جرنلسٹ دوست محمد فاروق خان بھی ساتھ تھے۔ فرانس اور اِٹلی فیفا ورلڈ کپ فائنل میں پہنچ چکے تھے اور ہماری خواہش تھی کہ گھر پہنچ کر ہی فائنل دیکھیں گے۔ رات کے آٹھ یا نو بجے ہوں گے ہم بہاول پور پہنچ کر شہر میں کچھ کھانے پینے کے لئے مناسب جگہ کی تلا ش میں تھے کہ میری نظر برقی قمقموں سے سجی ایک دلکش عمارت پر جا ٹھہری ۔ دوست نے فوراً ہی اپنا کیمرا تھام لیا! قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ بہاول وکٹوریہ اسپتال کی عمارت ہے اور اس کی تعمیر کے سوسال مکمل ہونے پر وہاں ایک پر وقار تقریب جاری ہے۔ پھر وہ دور بیت گیا اور یوںاُس دلکش عمارت کے قصے بھی تمام ہوئے۔
گزشتہ اتوار شام ڈھلے احمد پور شرقیہ کے سانحے میں جھلسے ہوئے کوئی 26افراد کو بہاول پور ایئر پورٹ پہنچایا گیا جہاں ایک C-130 طیارہ انہیں لاہور لے جانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ لیکن بہت سا وقت گزر جانے کے باوجود ائر پورٹ کے ارد گرد کوئی پرواز بلند ہوتی دکھائی نہ دی۔ ہر طرف آہوں، سسکیوں اور شوروغل کے باوجود آس پاس کی فضائوں پر ایک عجیب سکتہ ساطاری رہا! پھر پتہ چلا کہ طیارے میں کسی فنی خرابی کے باعث پرواز میں تاخیر ہورہی ہے۔ اس دوران ایک دوسرا C-130 طیارہ ایئر پورٹ پر اتر چکا تھا لیکن شاید اُس دن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اطلاع ملی کہ یہ دوسرا طیارہ بھی فنی خرابی کا شکار ہوگیا ہے۔ بعد ازاں ایک تیسرے طیارے کے پہنچنے کی اطلاع بھی موصول ہوئی لیکن شاید یہ طیارہ پچھلے دو جہازوں کی مرمت کے لئے لایا گیاتھا۔آخر کار عید کے دن علی الصبح کوئی آٹھ سے دس گھنٹے کی تاخیر کے بعد لگ بھگ 44زخمیوں کوان طیاروں کے ذریعے لاہور منتقل کردیا گیا۔
ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ پرواز میں ابتدائی تاخیر کے باعث کچھ زخمیوں کو بہاول وکٹوریہ اسپتال منتقل کردیا گیاہے۔ وہی اسپتال جس کو کوئی گیارہ برس قبل برقی قمقموں میں سجا دیکھا تھا اورجس کی بہت سی تصاویر بھی اتاری تھیں۔ لیکن دنیا کے اِس حصے میں نہ جانے کیوں زمینی حقائق اکثر بہت مختلف ہوتے ہیں۔ متاثرین کو بہاول وکٹوریہ اسپتال منتقل کئے جانے کے بعد انکشاف ہوا کہ ہماری سہانی یادوں میں رچے بسے اِس اسپتال میں کوئی برن وارڈ موجودہی نہیں ہے۔ جیونیوز کے ساتھی نمائندے امین عباسی سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ چند برسوں میں اسپتال کو وسعت دینے اور وہاں دستیاب طبی سہولتوں میں اضافے کے لئے اقدامات کئے جاتے رہے ہیں۔ توسیعی منصوبوں کی تکمیل کے بعد یہاں بہ یک وقت تین ہزار مریضوں کا علاج کیا جا سکتا ہے لیکن کسی جھلسے ہوئے انسان کی مناسب طبی امداد ممکن نہیں!
قومی شاہ راہ پر تحصیل احمد پور شرقیہ کی حدود میں واقع جائے حادثہ کے آس پاس انتہائی پسماندہ دیہات آبادہیں۔ اطراف کے تقریباً چالیس مربع کلومیٹر کے علاقے میں واقعتا کوئی مناسب طبّی سہولت موجود نہیں۔ عام حالات میں بھی یہاں جھلسنے کے روزانہ اوسطاً تین سے چار واقعات رُونماہوتے ہیں جب کہ علاقے میں دس بستروں پر مشتمل برن وارڈ صرف سی ایم ایچ میں دستیاب ہے۔پوچھنے پر امین عباسی نے مزید بتایا، ’’ متاثرہ افراد میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ غیرت کے نام پر عموماً اِ ن پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے یا جسم میں آگ لگادی جاتی ہے۔‘‘دوسری جانب معروف فزیشن ڈاکٹر کہتی ہیں کہ دنیا بھر کے بڑے اسپتالوں میں برن وارڈ عموماً چھ سے دس بستروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اِن کا کہنا ہے، ’’ ڈیڑھ سو بستروں پر مشتمل برن وارڈ والا اسپتال فی الحال دنیا میں کہیں موجود نہیں لہٰذا ایسے حادثات کی صورت میں متاثرین کو مختلف اسپتالو ں میں تیزرفتار ی کے ساتھ منتقل کرنے پر زیادہ زور دینا چاہئے۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ آئل ٹینکرالٹنے کا یہ حادثہ تقریبا صبح ساڑھے پانچ بجے رونما ہوا۔اُس وقت یہاں کے رواج کے مطابق لوگ سحری کرنے کے بعد جاگ رہے تھے۔ اس سوال کا فی الحال کوئی مصدقہ جواب نہیں مل سکا ہے کہ حادثہ کیوں اور کیسے پیش آیا۔ البتہ حادثے کے بعد کی صورتحال کہیں زیادہ خوفناک اور مایوس کن ہے۔
موٹر وے پولس اہلکار جائے حادثہ پر اگرچہ موجود تھے لیکن وہاں ہجوم کو ہٹانے کے لئے ایک مناسب نفری درکار تھی۔ ہمارے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ ٹینکر الٹنے کے بعد کوئی پینتالیس منٹ تک وہاں کوئی پولس نفری موجود نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں،’’ علاقے کے بچے بچے کو حادثے کا علم تھااور موٹر وے اہلکار مستقل اطلاعات بھیج رہے تھے۔ لہٰذا یہ مان لینا کہ پولس کو اطلاع نہیں تھی ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ ‘‘ البتہ اطلاع ملنے پر آرمی کے جوان اور ریسکیو1122کے اہل کار جائے حادثہ پر پہنچے جہاں قرب و جوار کے کھیتوں میں ہر طرف جھلسے ہوئے لوگ پڑے دکھائی دے رہے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اِن جھلسے ہوئے افراد کو طبی امداد روانہ کرنے کے پورے عمل میں آرمی کے جوان آگے آگے رہے۔
میرے لئے یہ ماننا ممکن نہیں کہ غربت، جہالت یا آگہی کے فقدان جیسا کوئی عنصر اِس قیامت کاسبب ہو سکتا ہے۔ گستاخی معاف، لیکن کیا اپنی اپنی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کے لئے جائے حادثہ سے پٹرول حاصل کرنے والوں کو بھلا یہ معلوم نہ تھا کہ پٹرول کیا بلا ہے ؟ گھرکے برتن تھامے ہوئے جائے حادثہ پر موجود کسی بھی فرد کا اس حقیقت سے لا علم ہونا ممکن نہیں کہ پٹرول میں آگ بھڑکانے کے لئے ایک معمولی چنگاری بھی کافی ہوتی ہے۔ معاملہ در حقیقت نا آگہی کا نہیں اور نہ ہی اِس کا تعلق براہ راست غربت سے ہے۔
اِس ہلاکت خیز اجتماعی جنون کا اَصل اور دیرینہ سبب مایوسی ہے، ناامیدی ہے،کبھی بھی جائز حق نہ ملنے کا مستقل طاری رہنے والا خوف ہے، اپنی باری کبھی نہ آنے کا اَعصاب شکن خدشہ اور پھر کبھی موقع نہ ملنے کا کبھی ختم نہ ہونے والا ڈر ہے۔ اور یہ مایوسی، ناامیدی، خوف اور یہ خدشات گزشتہ سات عشروں سے جنوبی پنجاب میں بسنے والوں کا مقدر ہیں۔ یہاں کسی دہشت گرد کوپناہ دینے یا انتہا پسندی کی تربیت کے لئے سہولتیں دستیاب ہوسکتی ہیں لیکن پھرکبھی موقع نہ ملنے کے مستقل خوف میں مبتلا ا ِن غریبوں کو دہکتی آگ میں جھلسنے سے روکنے والا دور دور تک کوئی نہیں ! شاید اسی لئے میں نے زمانہِ طالب علمی میں ایک بار جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ انتہائی ضعیف العمر محب وطن پاکستانیوں کو ’’ ریاست بہاول پور ‘‘کا دور انتہائی حسرت سے یاد کرتے ہوئے دیکھا تھا!

 

.

تازہ ترین