• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری، جے آئی ٹی کام کو حتمی شکل دینے کی بجائے شخصیات کی طلبی میں مصروف

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں، بھائی اور داماد کے بعد ان کی بیٹی کو بھی یاد کر لیا ہے اب جبکہ اس کی میعاد دو ہفتے کے لگ بھگ رہ گئی ہے، وزیراعظم کے دونوں بیٹوں اور عم زاد طارق شفیع کو باردگر بلا لیا گیا ہے جنکے جے آئی ٹی کہلوانے والی اس ٹیم کے حوالے سے تجربات ہرگز خوشگوار نہیں ہیں اب جبکہ ٹیم کو اپنی ’’کارکردگی‘‘ کو قطعی شکل دینے میں مصروف ہونا چاہئے وہ شہادتیں یکجا کر کے انہیں مرتب کرنے کی بجائے پہلے سے طلبیدہ شخصیات کو بلا کر اس تاثر کو پختہ تر کرنے میں مصروف ہے کہ وہ جن امور کی انجام دہی کے لئے مامور کی گئی تھی اس میں اسے کماحقہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وزیراعظم کے داماد کیپٹن محمد صفدر نے اپنی گواہی قلم بند کرانے کے بعد رائے ظاہر کی تھی کہ ٹیم کے فاضل ارکان بادی النظر میں وعدہ معاف تلاش کرنے کیلئے کوشاں ہیں، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز جو اس وقت بیرون ملک ہیں بلا کر اپنے نقادوں کے اس شبہے کو مزید راسخ کر دیا ہے کہ ٹیم احتساب نہیں انتقام اور وہ بھی مذاق کی شکل میں لے رہی ہے۔ اس واردات کو ایسی ملی بھگت کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے جس کا واحد مقصد شریف خانوادے پر دھول اڑانا ہے اور ملک میں جاری ترقیاتی سرگرمیوں میں رخنہ اندازی کی کوشش ہے اس طرزعمل کی بناء پر جے آئی ٹی اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے بے چین رہنمائوں کی توسیع بن کر رہ گئی ہے۔ ٹیم کے حوالے سے حزب اختلاف کے بعض غیرذمہ دار افراد کا بار بار دعوے کرنا اور جے آئی ٹی کا اس پر خاموشی سادھے رکھنا اس کے سیاسی عزائم کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے۔ اولاً وزیراعظم نواز شریف کا نام پاناما سازش کیس میں کہیں سرے سے موجود ہی نہیں تھا انہیں بعض سیاسی بہروپیوں نے اس میں الجھانے کی کوشش کی جو بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہیں، ان لوگوں کا ہدف پاکستان میں جاری ترقیاتی سفر میں روڑے اٹکانا ہے اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو گزند پہنچانا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں فروکش بعض افراد انہی عناصر کے آلہ کار کا کام دے رہے ہیں۔ یہ لوگ منی ٹریل کا بہت واویلا کرتے رہے، اس میں کارفرما بدنیتی کا کھلم کھلا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ قطر کے سابق وزیراعظم پرنس حمد نے ٹیم کو دوحا میں آنے، اس کی میزبانی کرنے اور شریف خانوادے کے ساتھ اپنے گہرے مالیاتی مراسم کی پوری روداد پیش کرنے اور لائق اعتماد دستاویزی شہادتیں مہیا کرنے کی فراخدلانہ پیشکش کی تھی جسے تاحال منظور کرنے سے فرار کی راہ اختیار کی جا رہی ہے، ٹیم کا یہ گریز اس کے متنازع فیہ ہونے کا بین ثبوت ہے، یہ لوگ منی ٹریل کی بات تو کرتے ہیں جو دستیاب بھی ہے اور فراہم بھی کی جا چکی ہے لیکن وہ واٹس ایپ کے ٹریل فراہم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ واٹس ایپ سے شروع ہونے والی کہانی میں بھی ٹیم کا کردار اسے مشتبہ بناتا ہے، جس اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ اس واٹس ایپ پر پیغام ملا تھاسیدھا سا سوال ہے کہ پیغام دینے والے یا والوں کو کس نے پیغام دیا تھا جس سے پورا کھیل واضح ہو جائے گا۔ جے آئی ٹی کے رویئے کی وجہ سے ملک عزیز کے استحکام کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف صاف لفظوں میں نشاندہی کر چکے ہیں کہ اس صورتحال نے ملکی معیشت کو گزند پہنچائی ہے اور اسٹاک ایکسچینج جسے اقتصادی ترقی ماپنے کا آلہ تصور کیا جاتا ہے، منفی طور پر متاثر ہوا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ حکومت کے مخالفین سوا چار سال ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں کہ عوام کو حکومت کے خلاف اشتعال دلائیں اس میں ذرائع ابلاغ میں فروکش ان کے لے پالک بھی اپنے حلق کی پوری قوت کو بروئے کار لا چکے ہیں اور عوام کا نواز شریف اور ان کی حکومت پر اعتماد ایک لحظے کے لئے بھی متزلزل نہیں ہوا جس کا ثبوت لگاتار ملتا رہا ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت برسراقتدار آئی تو چھ میں سے دو وفاقی اکائیوں میں اس کی ہمنوا حکومتیں تھیں۔ بعدازاں انتخابات ہوئے تو اب چار اکائیوں پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں صریر آرائے اقتدار ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں مجموعی طور پر حزب اختلاف کو واضح شکست سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی توقعات اور امیدوں کا مرکز بدستور نوازشریف ہیں، ان کے مخالفین جس قدر چاہیں سازشیں کر لیں اور انہیں الزام و دشنام دے دیں۔

تازہ ترین