• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں: اماراتی سفیر

کراچی (نیوز ڈیسک) قطر سے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے والے عرب ممالک اس پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔یہ بات روس کے لیے متحدہ عرب امارات کے سفیر عمر غباش نے برطانوی اخبار گارجین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔سعودی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ دوحا سے مطالبات پر بحث ممکن نہیں ، قطر دہشتگردی کی حمایت بند کرے ۔ اماراتی سفیر نے بتایا کہ نئی پابندیوں میں اس بات کا امکان بھی ہے کہ قطر مخالف عرب ممالک اپنے تجارتی ساتھیوں سے یہ کہیں کہ وہ قطر یا ان میں سے ایک کا انتخاب کریں۔عمر غباش کا کہنا تھا کہ قطر کا خلیج تعاون تنظیم سے اخراج واحد ایسی پابندی نہیں جو لگائی جا سکتی ہے۔کچھ ایسی اقتصادی پابندیاں ہیں جو ہم لگا سکتے ہیں اور ان پر فی الوقت غور کیا جا رہا ہے ۔دوسری جانب واشنگٹن میں موجود سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اب بھی اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔اپنے ٹوئٹر پیغام میں سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’قطر سے ہمارے مطالبات پر بحث ممکن نہیں، اب یہ قطر پر ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی حمایت بند کرے‘۔ادھر خلیجی ممالک کے اعلیٰ ترین سفارت کار قطری تنازع کے موضوع پر بات چیت کے لیے امریکا میں جمع ہیں۔ یہ ملاقات امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن کی جانب سے قطر تنازعے کے حل کی کوششوں کا حصہ ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ قطر کے معاملے پر سعودی عرب کا سخت موقف بحران کے حل کے سلسلے میں کسی پیش رفت کے راستے میں حائل ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب اور اس کی اتحادی دیگر عرب ریاستوں کی طرف سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے قطر کو دی گئی ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کو ہے۔امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن قطر تنازعے کے حل کی کوششوں میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے بھی ملاقات کی ہے۔ اس کے بعد ٹلرسن کویتی وزیر برائے امور کابینہ شیخ محمد عبداللہ الصباح سے بھی ملے۔ کویت اس تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے رواں ماہ قطر پر دہشت گرد گروپوں کی مدد کرنے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اس سے سفارتی، سفری و تجارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے جبکہ قطر ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔ان ممالک کی جانب سے قطر کے سامنے 13 مطالبات کی فہرست بھی رکھی گئی ہے جن پر عملدرآمد کے لیے اسے دس دن کی مہلت دی گئی ہے۔تاہم قطر کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک عرب ممالک سے بات چیت نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر عائد معاشی اور سفری پابندیاں نہیں ہٹائی جاتیں۔قطر کو ان سفارتی اور معاشی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ایسی صورتحال میں ترکی اور ایران وہ دو ممالک ہیں جو اسے خوراک اور دیگر اشیا بھجوا رہے ہیں۔

تازہ ترین