• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید سے ایک ہفتہ قبل جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی تو پورا پاکستان بہت خوش تھا اور کپتان سرفراز سمیت ہر پاکستانی کی خوشی دُہری ہوچکی تھی کیونکہ عید کی خوشیاں بھی قریب تر تھیں مگر کسے پتا تھا کہ ہماری اِن خوشیوں کو نظر لگ جائیگی اور پاکستان کے تین شہر ان دنوں میں بھی جنازے اُٹھارہے ہوںگے کسے پتا تھا کہ جیت کے نغمے گانے والی قوم عید جیسے خوشی کے موقعے پر نوحہ خوانی کررہی ہوگی اور عید پر گلے ملنے والے اب اپنے پیاروں کے جنازوں سے لپٹ کر رو رہے ہوںگے یہ سب کچھ بس آناً فاناً ہی ہوگیا اور قوم ماتم داری میں لگ گئی۔ کہیں ناگہانی آفت نے مارا تو کہیں دشمن کی سازشوں نے کہیں حکام کی نااہلی آڑے آئی تو کہیں نظام کی کمزوری جس نے کوئٹہ اورپاراچنار کو لہو لہان اور بھاولپور کو جلاکر کر رکھ دیا۔
مذکورہ بالا حادثات کے بعد ہوا وہ ہی جو ہمیشہ ہوتا ہے دنیا سے جانے والوں کے لواحقین سڑکوں پر حکام فوری اقدامات کےلیے حرکت میں اور اپوزیشن پوائنٹ اسکورنگ کےلیے میڈیا اور سوشل میڈیا پر۔ ایک نہ کہا کہ ہمارا سب کچھ لُٹ گیا ہے ہمیں انصاف چاہیے دوسرے نے کہا کہ ہم نے دُشمن کی کمر توڑ دی ہے اور جلد ہر طرف امن ہوگا تیسرےنے کہا کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے اسے مستعفی ہوجانا چاہیے ۔ وزیر اعظم نواز شریف لندن سے براہ راست بھاولپور تو پہنچ گئے مگر شاید کوئٹہ اورپاراچنار جانےکےلیےاُن کا ابھی استخارہ نہ آسکا۔ عمران خان شوبزکے خوبصورت اور نامور اداکاروں کے ساتھ شوگران کی پہاڑیوں سے نیچے آنے کے بجائے وہاں سے بھی وہ ہی بیان دیتے رہے جو کنٹینر پر چڑھ کر دیتےتھے اور عملی طور پر کچھ نہ کرسکے ابھی تک۔ پاراچنارپر مسلسل آواز بلند کرنے والی مجلس وحدت مسلمین کے راجہ ناصر عباس عید کے دوسرے دن ہی پاراچنار کےلیے روانہ ہوسکے ۔
سانحۂ بھاولپور اور کوئٹہ و پاراچنار میں ہونے والی بدترین دہشت گردی کے بعد سوشل میڈیا پر ایک انتہائی حساس بحث کا آغاز ہوگیا پہلے تو سانحۂ پاراچنار اور کوئٹہ کو میڈیا پر مناسب کوریج نہ ملنے پر لعن طعن کی جاتی رہی جو کہ اس حد تک صحیح بھی تھی کیونکہ کچھ چینلز نے واقعی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور انہیں اس کا احساس دلانا بہت ضروری تھا۔ جب وزیر اعظم نواز شریف لندن سے براہ راست بھاولپور پہنچے اور توقع یہ ہی تھی کہ اب وہ کوئٹہ اور پاراچنار بھی جانے کا اعلان کریں گے مگر ایسا نہ ہوسکا اور ان کے اس عمل کی عمران خان سمیت تقریباً ہر پاکستانی نے مذمت کی اور آہستہ آہستہ سوشل میڈیا پر یہ بحث ایک مسلک کو مسلسل نظر انداز کیے جانے کی بحث میں بدل گئی ۔ پہلے اس مسلک کے ہمدردوں کے ذریعے میڈیا کو اور پھر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو کہ ایک حد تک صحیح بھی تھا مگر اس بحث نے مجھے بہت کچھ سوچنے اور پھر لکھنے ہر مجبور کردیا۔

سوشل میڈیا کی لامتناہی ریاست کے طول وعرض پر پہلے لاکھوں مختلف سوچوں کی یہ فصلیں کہیں دوستی کے گلاب کھلارہی ہیں تو کہیں نفرت کے ایسے کانٹیں پروان چڑھارہی ہیں کہ جو ایک دن ہم سب کو ایسا زخمی کریں گی کہ اُن زخموں سے رسنے والا خون ایک ایسے سمندر میں بدل جائے گا جس میں بڑے بڑے ٹائٹینک ڈوب جائیں گے اور ہم جب تک اس کا احساس کرپائیں گے دنیا ہمارے ہاتھوں سے نکل چُکی ہوگی ۔ ہمارا دشمن ایک دفعہ پھر ہمیں آپس میں لڑا کر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بناکر ہمارے ملک ہمارے شہروں ہمارے محلوں ہماری گلی کوچوں کو خون میں نہلانے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ ہم سب کے نزدیک ہوکر ہم سب کو ایک دوسرے کے خلاف ایک ایسے غیض وغضب میں لارہا ہے کہ جس کا خراج یا تو ہم جان دے کر لیں گے یا لے کر۔ بڑی دنیا سعودی عرب ایران امریکہ پر بڑے بڑے بیانات دے رہی ہے جو جس کے قریب وہ اس کا مرید بن کر اپنے آپ کو سچا انسان مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ مجھے نہیں پتا کہ امریکہ سعودی عرب یا ایران کا مقصد کیا ہے اور اگر پتہ بھی ہو تو میں کیوں اس پر بات کروں اور اپنا موقف آپ ہر مسلط کروں میں اگر واقعی سچا مسلمان ہوں تو مجھے تو رسول خدا ﷺکی تعلیمات کے مطابق سب سے پہلے یہ پتا ہونا چاہیے کہ میرا پڑوسی خیریت سے ہے بیمار یا بھوکا تو نہیں مجبور یا لاچار تو نہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم اپنے ارد گرد رہنے والوں کی رسول اللہ ﷺکی تعلیمات کے مطابق داد رسی کریں ہم تو ایسے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں جو پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ ایک دن ہمیں بھی برباد کردے گا اور یہ سب ہم اپنے زمینی خداؤں کو خوش کرنے کےلیے کررہے ہیں سوچے کیا منہ دکھائیں گے آپ احمدِ مرسل کو روز قیامت کے یہ کیا ہے ہم نے اُنکی اُمت کے ساتھ کہ کسی کو شیعہ تو کسی کو سنی کسی کو وہابی یا کسی کو شافعی سمجھ کر صرف اس لیے ماردیا کہ ہمارے زمینی خدا اُن سے خوش نہیں تھے ۔ ہوسکتا ہے خدانخواستہ سعودی ایران اختلاف بڑھتا ہی چلا جائے اور ایک وہشت ناک صورت اختیار کرلے میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ ایسے موقعے پر اس آگ پر ہمیں تیل کا کام کرنا چاہیے یا پانی کا اپنی صفوں میں اتحاد رکھنا ہے یا ایک دفعہ پھر دوسروں کی جنگ میں اپنے آپ کو جھونکنا اور پھر چند سالوں بعد دوبارہ سر پکڑ کر رونا کہ ہم نے ایسا کیوں کیا۔ کیا افغانستان کی جنگ میں جھلسنے کے بعد ابھی تک ہمیں ہوش نہیں آیا کہ آج تک اُن زخموں سے خون رس رہا ہےاور ایک ناسور بن چکا ہے جس کا علاج صرف دوستی اور اخوت کے ڈاکٹر کے پاس ہے مذہب وملت کے ٹھیکیداروں کے پاس نہیں یاد رکھیں یہ ٹھیکیدار جو بظاہر آپ کے طرف دار بن کر سامنے آتے ہیں ان کو صرف اپنے کمیشن سے مطلب ہے سچے مذہب کی تبلیغ ان کا مشن نہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ لفافہ طرف دار دوستوں کو مجھ سے شدید اختلاف ہو مگر میں اپنی عام عوام سے مخاطب ہوں جس کو کبھی مذہب کے نام پر کبھی زبان کے نام پر اور کبھی غیرت کے نام پر استمعال کیا جاتا رہا ہے۔ کیا آپ دوبارہ بھی استعمال ہونا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ اپنے بچوں کو اسکول کے سفید یونیفارم کے بجائے سفید کفن میں دیکھنا چاہتے ہیں کیا اُن کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے وقت کے ان نام نہاد رہبروں کے پرچم دیکھنا چاہتے ہیں ؟ میں اپنے اُن عام دوستوں سے مخاطب ہوں جو صبح گھر سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں اُن میں سے کسی کے بھی ماتھے پر اُسکی قوم یا مذہب نہیں لکھا ہوتا کوئی بھی کاروبار قومیت یا مذہب کا حوالہ دیکر نہیں کیا جاتا صرف اس لیے کہ دستور دنیا یہ ہی ہے تو پھر کیوں اپنے گھروں کو ان بنیادوں پر آگ لگانے کی تیاری کررہے ہیں کہ جس میں ہمارے بچے بھی جل جائیں اور نسلیں بھی۔ ہمیں اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کےلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے بس سوشل میڈیا اور گلی کوچوں میں محبت اور رواداری کو آگے بڑھانا ہے اور اس کے بیچ میں آنے والے ہر بہروپیے کو فوراً باہر نکال کر پھینکنا ہے۔ یقین کرے اگر ہم نے یہ رویہ اپنا لیا تو اس کا سارا فائدہ ہوگا اسکول کالج جانے والے آپ کے بچوں کو گھریلو ضروریات کےلیے تنہا باہر نکلنے والی آپ کی بہنوں اور ماؤں کو اور آپ کے تھکے ہارے باپ کو جس کو آپ کے شاندار مستقبل کی ضرورت ہے۔ ایک دن ہم سب نے مرنا ہے کیوں نہ جی کر مریں اور لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنا ہی جینے کی علامت ہے آنسو تو جنازوں پر ہوتے ہیں۔ طاقتور اُس مرد کو نہیں کہتے جو ایک لمحے میں سیکڑوں گردنیں اُتار دے بلکہ اُسے کہتے ہیں جو یہ کرسکنے کی طاقت رکھتا ہو اُس کے باوجود درگزر اور معاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ یقین کریں اگر اختلاف ہی اصل طاقت ہوتی تو جنگی مہارت کے بادشاہ حضرت عمر اسلام کی توقیر کے آگے سر تسلیم خم نہ کرتے حضرت علی جیسی طاقت رکھنے والے حضرت عباس ایک آن میں یزید کی فوجوں کو روند دیتے مگر سر بلندی اسلام کی خواہش سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں تھی جبھی تو سر ہمیشہ تسلیم خم رکھا۔ اور سر بلندی اسلام کسی کو نیچا دکھانے میں نہیں بلکہ بلکہ جُھکے ہوؤں کو بھی اٹھانے میں ہے ۔
میں اپنے پاکستانیوں کو بتادینا چاہتا ہوں کہ سانحۂ بھاولپور اللہ تعالی کی طرف سے ہم پاکستانیوں کو ایک اشعارہ ہے کہ دیکھو تیل کی طرف نہ جانا ورنہ جل جاؤ گے اور ایسے جل جاؤ گے کہ کوئی تم کو پہچان بھی نہ پائے گا شاید خدا نے ان دو سو معصوم انسانوں کی زندگی کے بدلے ہم بیس کروڑ کو ایک پیغام دیا ہو کہ تیل سے دور رہو کیونکہ خدا اپنا پیغام ایسے ہی دیتا یا تو معجزات دکھاتا ہے یا پھر حادثات جو قومیں ان اشاروں کو سمجھ لیتی ہیں ترقی پاجاتی ہیں جو نہیں سمجھتی برباد ہوجاتی ہیں یہ ہی تو فرق ہے قوم عاد اور محمد عربی کی قوم میں اور اگر اب بھی ہم نے سمجھیں تو دنیا کیا خدا کو بھی ہم پر رحم نہیں آنا۔

تازہ ترین