• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت، اشرافیہ کے ہاتھوں نچلے طبقے کا استحصال

بھلوال (اے ایف پی) رواں سال جب لاہور میں حکام نے ایک مقامی اسپتال پر چھاپہ مارا تو گُردوں کی غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کرنے میں مصروف ڈاکٹروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ گردہ بیچنے والا مقامی شخص اور ایک اومانی کلائنٹ آپریشن ٹیبل پر تاحال بے ہوش تھے۔ حکام نے ڈاکٹروں کو آپریشن مکمل کرنے کی اجازت دی جس کے بعد انہیں ان کے معاونین اور اومانی شخص سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ چھاپہ اعضا کی غیر قانونی فروخت کیخلاف جنگ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ پاسکتان کو گزشتہ کئی برسوں سے گردوں کی غیر قانونی تجارت کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے لیکن میڈیکل اور مقامی حکام کی شکایت ہے کہ وہ اس تجارت کیخلاف کارروائی نہیں کر پا رہے۔ رضاکارانہ بنیادوں پر اعضا عطیہ کرنا اس وقت تک قانونی عمل ہے اور اس کا کوئی معاوضہ یا قیمت نہیں ہوتی۔ ملک کے علما نے بھی اسے اسلامی قرار دیا ہے لیکن آگہی نہ ہونے اور اس عمل کو غلط سمجھا جانے کی وجہ سے لوگ عطیہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ سپلائی میں کمی کی وجہ سے اشرافیہ طبقہ اعضا کی غیر قانونی فروخت میں ملوث مافیا کے ساتھ مل کر اکثر غریبوں کا استحصال کرتا ہے۔ گردوں کی خریداری کا عمل اس قدر سستا ہے کہ بیرون ممالک بالخصوص خلیجی ممالک، افریقا اور برطانیہ سے بھی لوگ خریداری کیلئے پاکستان آتے ہیں۔ اے ایف پی کے نمائندے نے جیسے ہی مقامی اسپتال میں قدم رکھا تو اسے فوراً ہی ایک ایسا ایجنٹ مل گیا جس نے 23؍ ہزار ڈالرز کے عوض گردہ عطیہ کرنے والا شخص تلاش کرنے اور سرکاری خط و کتاب اور اجازت کے حصول میں مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ سرکاری ادارے ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (ہوٹا) نے اس صورتحال پر اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ ادارے کے مانیٹرنگ افسر ڈاکٹر سلیمان احمد کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے گردہ عطیہ کیا ہے تو اس صورتحال میں ادارہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ایف آئی اے کی جانب سے مارے گئے حالیہ چھاپے کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات سے ہم غیر قانونی دھندے میں ملوث افراد کو سخت پیغام دے سکتے ہیں۔ اس چھاپے کے نتیجے میں 16 افراد گرفتار ہوئے تھے جنہیں 10 سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔

تازہ ترین