• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں کہ اس پر فوری طور پر ایک سطری فیصلہ صادرکردیاجائے ۔یہ مسئلہ غور طلب ہے۔ کوئی پانچ دہائیاں قبل میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوںکے بعد گھر سے بذریعہ ریل لاہور کے لئے روانہ ہوا۔ اس دور میں ریلوے کا نظام خاصی حد تک منظم تھا۔ گاڑی گوجرانوالہ پہنچی تو اچانک خاصا رش ہو گیا کیونکہ گوجرانوالہ سے صبح کے وقت بہت سے لوگ کام کرنے لاہور آیا کرتے تھے اور شام کی ٹرین سے واپس لوٹ جاتے تھے۔ چند منٹ رکنے کے بعدگاڑی چلی تو میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ بہت سے لوگ گاڑی کے پائیدان پر کھڑے ہوئے تھے اور کچھ لٹکے ہوئے تھے۔ ابھی گاڑی نےکوئی دس پندرہ منٹ کا سفر ہی طے کیا ہوگاکہ میری آنکھوں کے سامنے پائیدان پرکھڑا ایک مزدور نما نوجوان ریل کی پٹڑی کے ساتھ لگے کھمبے سے ٹکرایا اور لوٹ پوٹ ہوتانیچے گر گیا۔ میںنے فوراً گاڑی کی زنجیر کھینچی اور غمگین نظروںسے گرنے والے نوجوان کو دیکھنے لگا۔ گاڑی کو رکنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ سامنے ایک چرواہا جانور چرارہاتھا۔ وہ اس نوجوان کو گرتے ہو ئےدیکھ کر اس کی طرف بھاگاتو مجھے یوں لگا جیسے وہ زخمی مسافر کی مددکے لئے آرہا ہے لیکن میرا صدمہ اس وقت دوگناہو گیا جب میری نگاہوںکے سامنے چرواہے نے بے ہوش زخمی مسافر کے پائوں سے جوتے اتارے اور بھاگ کر فصلوں میںگم ہو گیا۔ گرنے والا ایک غریب انسان تھا۔ اس نے کوئی قیمتی جوتے یا لباس پہنا ہوا نہیں تھا۔ ذرا سوچئے کہ جوتے اتارکر بھاگنے والا اس مال مسروقہ یا مال حرام سے کتنا خوشحال ہو گیا ہوگا؟ اس منظر نے جہاں میرے دل پہ صدمے کے چرکے لگائے وہاں اپنی قوم کااصل چہرہ بھی بے نقاب کردیا۔ جب میں قوم کی بات کرتا ہوں تو مراد اکثریت سے ہے کیونکہ میں نے زندگی کے طویل سفر میں قوم کے معتد بہ حصے کو ہر قسم کی اخلاقی گراوٹ، بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ، لالچ، حرص، جھوٹ، دھوکہ دہی اور قانون شکنی میں مبتلا دیکھا ہے۔ چھوٹی چھوٹی اور بظاہر بے ضرر مثالوں سے لے کر ملکی و قومی سطح تک جھوٹ، فراڈ، لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی اور بے اصولی کا سمندر بہہ رہا ہے۔ جس میں امیر اور غریب دونوں بہہ رہے ہیں۔ مجھے اس وقت حیرت ہوتی ہے جب دانشور ہر خرابی اورہر قومی مرض کی جڑ غربت یا جہالت میں تلاش کرتے ہیں کیونکہ میں نے اپنی آنکھوںسے غریب، امیر، با اثر، بے اثر، جاہل اوراعلیٰ تعلیم یافتہ سبھی کو اخلاقی حمام میں بے لباس دیکھا ہے۔ غریب نائب قاصد اگر سو روپوں میں کوئی غلط کام کرنے پر تیار ہو جاتا تھا تو اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر کا ریٹ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے تھا۔ ایماندار، رزق حلال کھانے والے اور بااصول حضرات بھی موجود تھے اور موجود ہیں اوران کا دم غنیمت ہے لیکن بدقسمتی سے ایسے حضرات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر.....!!!
گزشتہ دوتین دہائیوںمیں ریلوے کے کئی حادثات ہوئے جن میں سینکڑوں لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان گنت لوگ اپنے اعضا گنواکر معذورہو گئے۔ ہر حادثے کے بعد ایسی دلخراش خبریں پڑھنے اور سننے کو ملیں جنہوں نے مجھے اندر سے لہولہان کردیا اور قلب و ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ گئیں۔ ہر حادثے کے بعدقریبی بستیوں کے لوگ چیخ و پکار کی آواز سن کر موقع پر پہنچے کچھ لوگ ڈبوں میں پھنسے اور زخمی و بے ہوش مسافروں کی مدد کرنے لگے جبکہ کچھ حضرات نے ڈبوں میں جکڑی زخمی خواتین کو باہر نکالنے کی بجائے ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اور بازوئوں سے چوڑیاں اتارنے کو ترجیح دی۔ چند برس قبل آزادکشمیر میں قیامت خیززلزلہ آیا تو پوری قوم زلزلہ زدگان کے غم میں ڈوب گئی، ان گنت تنظیمیں ان کی مدد کو پہنچیں لیکن زلزلہ زدگان سے ایسی داستانیں بھی سننے کو ملیں کہ کچھ حضرات اس خدائی قہر کے دوران بھی لوٹ مار میںمصروف رہے۔ تقسیم ہند اورقیام پاکستان کے وقت میں کم سن تھا اس لئے مجھے علم نہیںلیکن ان گنت زبانی کہانیوںکے علاوہ سرکاری ریکارڈ، کتابیں، مشاہدات اور صحافتی رپورٹیں اس تلخ حقیقت کو نمایاں کرتی ہیں کہ ایک طرف قتل و غارت اور جلائو گھیرائو جاری تھا تو دوسری طرف نقل مکانی کرکے جانے والوںکے گھروںسےلوٹ مارعروج پر تھی کیونکہ قانون نام کی کوئی شے موجود ہی نہیںتھی۔ کیا ریل کے حادثات، زلزلوں، قدرتی آفات یا بٹوارے میں صرف غریب ہی لوٹ کھسوٹ میں مصروف تھے؟ بالکل نہیں۔ اس سنگدلانہ کارروائی میں سبھی شریک تھے اور سبھی شریک ہوتے ہیں۔ احمدپورشرقیہ یا بہاول پور کے جانکاہ حادثے میںبے شمار مرد عورتیں بچے جل کر راکھ ہوگئے۔ پٹرول کا ٹینکر ایک کارکو بچاتے ہوئے الٹ گیا اور ہر طرف پٹرول بہنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں لوگ اپنے برتن اٹھائے، واٹر کولر، بوتلیںاور دیگچیاں سنبھالے پٹرول کی لوٹ میں مصروف ہوگئے۔ ڈرائیور منع کرتارہا کہ آگ لگ سکتی ہے دور ہوجائو لیکن جب ہوس کا بھوت سوار ہو تو کوئی نصیحت اور وارننگ کام نہیں کرتی۔ میرے دانشور دوست اسے غربت کا المیہ قرار دیتے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ ان سے پوچھوں کہ وہ کاریں اور سینکڑوں موٹرسائیکل جو پٹرول کی بہتی گنگا سے ٹینکیاں بھرنے میں مصروف تھے اور جل کر راکھ ہو گئے کیا وہ غربت کا شکار تھے؟ نزدیکی گائوںکے کھاتے پیتے گھروں کے حضرات جو واٹر کولر لے کر پہنچے تھے، کیا وہ کئی دن کے بھوکے تھے اور انہوں نے اس پٹرول سے اپنی بھوک مٹانی تھی؟
موضوع طویل ہے میں نے دیگ سے فقط چند دانےپیش کئے ہیں۔ میں نے زندگی کے سفر میں نہایت غریب مگر نہایت ایماندار اور بااصول حضرات بھی دیکھے ہیںاور دولت کے اونچے انباروں پربیٹھے اورہیرے جواہرات سےکھیلتے امرا کو اپنی حرص و ہوس کے سبب نہایت غریب بھی پایا ہے کیونکہ غریب وہ ہوتاہے جس کی بھوک کبھی ختم نہ ہو۔ اس لئے میںاس لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی، چوری چکاری کوصرف غربت و جہالت کا شاخسانہ نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک یہ ہماری قوم کے اخلاقی تنزل کا قحط ہے اورہمارا مائنڈ سیٹ اور معاشرتی کلچر بن چکاہے جس کی بنیادی وجہ اخلاقی تربیت اور کردار سازی کا فقدان، خوف ِ خدا اور جوابدہی کے احساس کاخاتمہ ہے۔ قوم کے لیڈران، امرا(ELITE)نمایاں شخصیات عوام کارول ماڈل ہوتی ہیں جب معاشرے کے اعلیٰ طبقات کی لوٹ مار کی کہانیاں زبان زد عام ہوںتو لوٹ مار، حرص وہوس، اخلاقی گراوٹ اور لاقانونیت کے سمندر کےسامنے بند باندھنا ناممکن ہوتا ہے۔
ایک بات یادرکھیںکہ جس معاشرے اور گھر سے جائز و ناجائز، حلال اور حرام کی تمیز مٹ جائے اس معاشرے سے اللہ پاک کی برکت اور رحمت کا سایہ بھی اٹھ جاتا ہے۔

 

.

تازہ ترین