• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سطح سے ذرا نیچے بہت سے مسائل ہیں، عام آدمی جن سے متاثّرہوتا ہے، اور توجہ جس طرف بالکل نہیںدی جارہی۔ معاملہ یہ امن و امان کا ہے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے براہ راست متعلق ہے۔ خرابی بہت ہے، بہت زیادہ، کم سے کم الفاظ میں اگر کہا جائے۔ مگر شاید ہی کبھی کسی نے اُس طرف دھیان دیا ہو۔ گو قصہ یہ آئے دن کا ہے۔ اور ہر بستی کا۔
آپ نے یہ بات سنی ہوگی کہ تھانے والوں نے کسی شخص کو اٹھا لیااور اتنے پیسے لے کر چھوڑا۔یوں تو آئے دن ایسا ہوتا ہے، قصّے تو بہت، اور بے شمار۔ ایک آدھ سن لیں۔ سمندر میں نہا نے پر پابندی ہے، اور ہیلمٹ پہننا ضروری ہے۔ مقصد عام لوگوں کی زندگی بچانا ہوتا ہے۔ موسم خراب ہے، سمندر بپھرا ہوا ہے، ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ یا سڑک پر کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے، ہیلمٹ ہو تو زندگی بچ سکتی ہے۔ حکومت کا ارادہ عوام کا تحفّظ ہے۔ اور پولیس اس کی ذمہ دار کہ لوگوں کو پابندی کے دنوں میں سمندر میں نہانے نہ دے، یا سڑک پر موٹرسائکل چلانے والوں پہ نظر رکھے کہ وہ ہیلمٹ پہننے کی پابندی کررہے ہیں یا نہیں۔ اچھی بات ہے۔ مگر ہوتا کیا ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ توجہ جس بات پر دی جانی ہے وہ یہ کہ ایسا ہونا نہیں چاہئے۔
پچھلے دنوں کئی واقعات ہوئے۔ ایک خاندان نے شکایت کی کہ ان کے بچے کو سمندر پر نہانے کے جرم میں پولیس والے پکڑ کر لے گئے ہیں، چھڑوادیں۔ ان کا خیال شاید یہ تھا کہ اخبار والوں کے بڑے تعلقات ہوتے ہیں، کسی سے کہیں گے تو بچہ چھوٹ جائے گا۔ وہ شاید اطلاع بھی نہیں دیتے، مگر بیچ میں ایک سخن گسترانہ بات آن پڑی۔ پولیس والے بچے کو چھوڑنے کے دس ہزار روپے مانگ رہے تھے۔ اب ایک اتنی معمولی سی بات کہ وہ بچہ سمندر میں نہا رہا تھا، ایک پابندی کی خلاف ورزی کررہا تھا۔ غلط کیا۔ مگر اس کی کیا اتنی زیادہ سزا کہ بچے کو چھڑانے کے لئے دس ہزار روپے دینے پڑیں گے؟ نہ دیں تو کیا ہوگا؟ وہ کہتے ہیں ایف آئی آر کاٹ دیں گے۔ یعنی پھر گھر والوں کو عدالت کے چکّر کاٹنے ہوں گے اور بچہ کچھ دن بعد چھوٹ جائے گا۔ مگر اس میں خواری بہت ہو گی۔ تو بہتر ہے دس ہزار روپے دے دیں۔ خواری سے بچیں۔ مگر کیا یہ کوئی صحیح طریقہ ہے؟ شاید ہی کوئی اس کی حمایت کرے۔ مگر اس سے بھی بد تر کہ شاید ہی کوئی اس طرف توجہ دے۔ یہ جو آئے دن ڈبل سواری یا ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے لوگوں کو پکڑا جاتا ہے، سب کے چالان نہیں ہوتے۔ آپ بھی جانتے ہیں، اور باقی سب کے علم میں بھی ہے۔ کچھ مک مکا ہوتا ہے۔یہ نہیں ہونا چاہئے۔
مگر ہو رہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس پر نظر نہیں رکھی جارہی۔ یعنی وہ لوگ نظر نہیں رکھ رہے جن کی یہ ذمہ داری ہے، پولیس کے اعلیٰ حکام، قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے۔ اور وجہ شاید یہ ہے کہ پولیس کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں، انہیں دے دئیے گئے ہیں، یا انہوں نے لے لئے ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی پر گرفتاری کا انہیں حق ہے اور اختیار۔ مگر اس سے آگے کیا؟ قانون کہتا ہے کسی بھی شخص کو گرفتاری کے چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جائے۔ بے شمار معاملات میں ایسا نہیں ہوتا۔ آئے دن یہ اطلاعات ملتی ہیں کہ فلاں علاقے سے فلاں آدمی کو اٹھا لیا گیا۔ کیونکہ اس کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی اس لئے قانون کا وہ مطالبہ کہ چوبیس گھنٹے میں ملزم کو کسی عدالت میں پیش کیا جائے، قانون کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کے حوالے سے شاید یہ ضروری ہو کہ انہیں کچھ دن حراست میں رکھ کر ان سے مزید پوچھ گچھ کی جائے، حالانکہ اس کی بھی ضرورت نہیں ہے، عدالتیں ایسے مقدمات میں ملزمان کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیتی ہیں۔ اس ریمانڈ کے دوران بھی پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے۔ اور اس ریمانڈکا مقصد ہی یہ ہے۔
ادھر پولیس کے مختلف محکمے ایک دوسرے کے اختیارات پر منہ مارتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں، ایک آدھ ہفتے پہلے ہی کی بات ہے، پولیس کے ایک محکمے کے لوگ رات گئے ایک آدمی کو اُس کے گھر سے اٹھا کر لے گئے۔ ایک آدھ دن تو اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ کون لے گیا۔ علاقے کے تھانے نے لا علمی ظاہر کی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر کسی شخص کو حراست میں لیا جائے تو علاقہ کے تھانے کو اس کی اطلاع دی جائے۔ مگر یہ بھی نہیں ہوتا۔ پھر پتہ چلا کہ دہشت گردی سے متعلق پولیس کے ایک شعبہ نے اس آدمی کو اٹھایا ہے، اور الزام اس پر یہ ہے کہ کسی نے اس کی شناخت وغیرہ استعمال کرکے کسی نجی فرم میں کوئی غبن کیا ہے۔ وہ آدمی کافی عرصہ پہلے وہ نجی فرم چھوڑ چکا ہے۔ کسی اور نے کام دکھایا۔ پولیس کے اس شعبہ کو جب یہ پتہ چل گیا کہ یہ فرد غبن میں ملوث نہیں ہے اور اس کا کوئی تعلق اس سارے معاملے سے نہیں ہے تو گھروالوں سے دو ڈھائی لاکھ روپے طلب کئے گئے، اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر رقم نہیں دی گئی تو ایف آئی آر کاٹ دی جائے گی، اور آپ کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑیں گے۔ جہاں وہ شخص کام کرتا ہے وہاں اس کی شہرت بھی خراب ہوگی اور اس کی نوکری بھی جا سکتی ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ پولیس کے اس شعبہ کا غبن وغیرہ کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ violent crime کے معاملات دیکھتا ہے۔ مگر اس کے لوگ غبن کے اس معاملہ میں بھی کود پڑے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا ہے یا نہیں؟ شاید کبھی تھا۔
شعیب سڈل صاحب کراچی میں ڈی آئی جی تھے۔ ہمارے علاقے کے ایک مکینک نے شکایت کی راستے میں کھڑے ہوئے پولیس والے اس کے یہاں کام کرنے والے لوگوں سے شام کو گھر جاتے ہوئے رقم چھین لیتے ہیں جو ان غریب مزدوروں کی دن بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ یہ دیکھنا کہ کیا ہورہا ہے ڈی آئی جی کا کام نہیں تھا، مگر اس وقت وہی ایک جاننے والے تھے۔ ان سے شکایت کی، اگلے دن وہ پولیس والے وہاں نہیں تھے، اور جو وہاں متعین کئے گئے انہوں نے کبھی ان مزدوروں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ایک بار اس وقت کے وزیرِاعلیٰ، اور ہمارے دوست، عبداللہ شاہ صاحب ضلع وسطی سے گزرنے والے تھے، سخت سیکورٹی تھی۔ ایسے میں میرا بیٹا بازار سے کچھ چیزیں خریدنے گیا۔ جب اسے کافی دیر ہوگئی تو تشویش ہوئی۔ جاکر دیکھا تو سیکورٹی پر تعینات پانچ پولیس والوں نے اس بارہ چودہ سال کے بچے کو ایک بکتر بند گاڑی میں بٹھایا ہوا تھا، اور اسے یہ دھمکی دے رہے تھے کہ تمہارے باپ سے پچاس ہزار روپے وصول کریں گے۔ پولیس والے اس کے پاس سے ایک کلاشنکوف اور ہیروئن کی پڑیا بھی برآمد کر چکے تھے۔ سڈل صاحب نے نہ صرف اس بچے کو چھڑوایا بلکہ پانچوں پولیس والوں کو معطل بھی کردیا۔ ابھی پچھلے دنوں ایک عزیز کا کچھ قیمتی سامان گاڑی میں سے چوری ہو گیا۔ پہلے تو یہ ہی پتہ نہیں چلا کہ یہ میٹھادر تھانے کی حدود ہے یا کھارادر تھانے کی۔اور جب یہ تعین ہو بھی گیا تو ایک برائے نام ایف آئی آردرج ہوئی اور آج تک وہ سامان نہیں ملا۔ ایک لڑکا تھانے والوں نے پکڑا تھا، وہ تین لاکھ روپے، یعنی سامان کی قیمت دینے کو تیار تھا، اگر ایف آئی آر نہ کٹوائی جائے۔ ان عزیز کو غلط مشورہ ہم نے دیا اور ایف آئی آر کٹوادی۔ آج تک سامان بھی نہیں ملا ، اور وہ تین لاکھ توکیا ملنے تھے۔ وہ پورا ایک گروہ ہے، بلوچستان سے اس کے کارندے آتے ہیں، کھارادر تھانے کی حدود میں واقع چھوٹے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، اور بس والوں کے ذریعہ چوری کاسامان بلوچستان چلا جاتا ہے۔ یہ سب تھانے والوں نے معلوم کیا مگر ملزم ہاتھ نہیں آیا یا اس پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ ایک طرف یہ عالم ہے، اور دوسری طرف یہ کہ جس کو جی چاہے اٹھا کر لے جائیں اور پھر دھمکیا ں دے کر اور رقم لے کر چھوڑدیں۔
یوں زیادہ نہیں چلے گا۔ یہ سسٹم تباہی کی طرف جا رہا ہے اور جب یہ ٹوٹے گا تو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جائے گا۔ وہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے جس میں اس نظام کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ پھر پچھتانے کا موقع بھی نہیں ہوگا، تاریخ گواہ ہے۔

 

.

تازہ ترین