• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹولنٹن مارکیٹ میں شاپنگ کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یہاں تو ایک چھوٹا سا چڑیا گھر آباد ہے یہاں موڑ، تیتر، طوطے، بندر، بٹیر، کتے، بلیاں، کبوتر سب کچھ موجود ہے ! کتے پنجروں سے باہر زنجیروں سے بندھے ہوتے ہیں اور مختلف نسلوں کے یہ کتے مختلف نرخوں پر دستیاب ہیں جبکہ باقی پرندے اور جانور پنجروں میں بند کئے گئے ہیں میں نے دو سفید معصوم سی بلیاں دیکھیں جو ایک چھوٹے سے پنجرے میں بند تھیں اور ان کے لئے حرکت کرنا بھی ممکن نہ تھا یہاں بھی قیدیوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی یوں لگتا تھا جیسے یہ سب کسی دشمن ملک کی قید میں ہوں جبکہ یہ ’’اپنوں‘‘ کی قید میں تھے۔ میرا ایک احساس یہ بھی تھا کہ یہ سب تاوان کے لئے اغوا کرکے یہاں رکھے گئے ہیں اور یہ درست تھا کیونکہ ان کی قیمت ادا کرکے انہیں رہا کرایا جا سکتا تھا۔ میں کسی آزاد فرد بلکہ کسی پرند چرند کی نقل وحرکت پر بھی ناجائز پابندی کو ذہناً قبول نہیں کر سکتا۔میرے بس میں ہو تو میں سب زنجیریں کھول دوں اور ان سب کو آزاد کر دوں جو معاشرے کے لئے ضرر رساں نہیں ہیں جبکہ یہاں بے گناہوں کو قید کیا گیا تھا اور ان کی رہائی ’’جرمانہ‘‘ ادا کرکے ممکن بنائی گئی تھی ۔ میں نے اپنی جیب کو ٹٹولا اس میں سے صرف پچاس روپے کا ایک نوٹ باقی رہ گیا تھا اور ان سب پرند چرند کی رہائی کے لئے لاکھوں روپے درکار تھے میں دکان کے مالک کے پاس گیا اور پوچھا ایک کبوتر کتنے کا مل سکتا ہے۔ دکاندار نے پوچھا پکانے کے لئے ،پالنے کے لئے یا آزاد کرنے کے لئے میں نے جواب دیا آزاد کرنے کے لئے۔ اس نے چالیس روپے قیمت بتائی اور پھر پیسے وصول کرکے کبوتروں کے ایک ڈربے میں ہاتھ ڈالا اور ایک کبوتر اس میں سے نکال کر میرے حوالے کردیا میں نے باقی کبوتروں اور اردگرد کے پنجروں کے قیدیوں سے دل ہی دل میں معذرت کی اور کبوتر کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے دکان سے نکل کر باہر کھلی فضا میں آگیا۔ درختوں اوربجلی کے کھمبوں پر بہت سے پرندے بیٹھے آزاد فضائوں کا لطف اٹھا رہے تھے میں بہت خوش تھا کہ ایک اورمعصوم سے پرندے کو اس کی آزادی واپس ملنے والی ہے چنانچہ میں نے اپنا دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا اور پھر مٹھی کھول کر کبوتر کو آزاد کردیا۔ کبوتر اڈاری مار کر تقریباً تیس فٹ بلندی تک گیا اور پھر ایک چھوٹے سے دائرے میں چکر کاٹ کر اسی دکان کی منڈیر پر آبیٹھا جہاں سے میں نے اسے حاصل کیا تھا۔ اب وہ منڈیر پر بیٹھاگردن کو تیزی سےادھر ادھر حرکت دے کر آزاد فضائوں کا نظارہ کررہا تھا لگتا تھا کہ وہ ابھی کچھ کنفیوژ ہے اور صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے جب اسے منڈیر پر بیٹھے تقریباً دس منٹ گزر گئے تو میں نے جانا کہ وہ ابھی تک خودکو قید سمجھ رہا ہے ورنہ اسے اگر اپنی آزادی کا احساس ہوتا تو ایک لمبی قید کے بعد وہ دوبارہ ایک جگہ بیٹھے رہنے کی بجائے فضا میں لمبی اڈاریاں مارتا۔ اس پر میں نے سڑک پر کھیلتے ہوئے ایک بچے سے کہا کہ وہ منڈیر پر بیٹھے ہوئے کبوتر کو اڑانے کی کوشش کرے۔ بچے نے زمین سے کنکر اٹھا کر کبوتر کو نشانہ بنایا یہ کنکر اس کی ٹانگ کو لگاجس کے نتیجے میں اس نے ایک دفعہ پھر اڈاری ماری اور ایک مختصر سے دائرے میں چکر لگا کر دکان کی چھت پر دھرے ایک بڑے ڈربے کے اوپر جا بیٹھا جس میں اس کے بھائی بند قید تھے میں سڑک کے کنارے کھڑی کار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور منتظر رہا کہ وہ کب پرواز کے لئے پر کھولتا ہے لیکن وہ اسی طرح گم سم اسی ڈربے پر بیٹھا رہا۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ اڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تو میں نے دکان پر کام کرنے والے ایک نوجوان سے کہا کہ وہ اوپر جا کر اس کبوتر کو پکڑ لائے نوجوان دھڑا دھڑ سڑھیاں چڑھتا ہوا چھت پر پہنچا اور ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا کبوتر نے رتی بھر مزاحمت نہیں کی تھی میں نے نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور یہ کبوتر دوباہ فضا میں چھوڑ دیا اس نے ایک بار پھر ایک مختصر سی اڈاری ماری اور دوبارہ چھت کی منڈیر پر جا بیٹھا۔ میں نے سڑک پر کھیلنے والے بچے کی مدد سے اسے وہاں سے اڑایا تو وہ ایک دفعہ پھر چھت پردھر ےڈربے پر جا بیٹھا میں نے پھر اسی نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اسے پکڑ کر لائے جوپہلے بھی اس ضمن میں میرے کام آیا تھا۔ نوجوان چھت پر گیا اور دوبارہ بہت آسانی سے پکڑ لایا۔ جب تیسری بار آزاد کرنے پر بھی ذہنی طور پر غلام اس کبوتر نے آزاد فضائوں میں آزادانہ پرواز کی سہولت سے فائدہ نہ اٹھایا اور وہ نوجوان اسے میرے لئے تیسری بار پکڑ کرلایا تو میں نے یہ کبوتر اسے واپس کرتے ہوئے کہا ’’یہ تم رکھ لو نوجوان اس پر بہت خوش ہوا مگر اس نے اوپر سے کہا’’جناب! میں اس کا کیا کروں گا‘‘۔
اسے دکاندار کے پاس بیچ دو جو اسے دوبارہ قیدکردے یا اسے ذبح کر کے کھا لینا۔ جو کوئی اپنی آزادی کی حفاظت نہ کرسکتا ہو یا ذہنی غلامی میں پختہ ہو جائے چاہے وہ کوئی پرندہ ہو یا کوئی قوم اس کے مقدروں میں غلام یا ذبح ہونا لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔(28جنوری 2003ء)

 

.

تازہ ترین