• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرقہ واریت
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر فرقہ واریت کے حوالے سے تفتیش کا دائرہ وسیع، متعدد پیج بلاک، ملوث افراد کے بارے تفصیلات طلب۔ سوشل میڈیا ایک بہترین وسیلہ ہے، قومی یک جہتی کو فروغ دینے کا، جسے بڑی تیزی سے قوم کو منتشر کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، اور نتائج ہولناک صورت اختیار کرسکتے ہیں، مذہب ہو یا سیاست دونوں کو آڑ بنا کر پاکستانی کو پاکستان سے جدا کرنا ایک ایسا جرم ہے جس کے بارے اب کہا جاسکتا ہے کہ یہ سوشل میڈیا دہشت گردی ہے، فرقہ واریت کی اسلا م میں کوئی گنجائش نہیں، جو بھی اس میں ملوث پایا جائے وہ دہشت گرد قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو ایک دہشت گرد کے ساتھ کیا جاتا ہے، ہر اس بات جس سے کسی کا دل دکھے اور قوم کے افراد میں لفظی خانہ جنگی کا امکان ہو کو بین کردیا جائے، اور اگر یہ فتنہ زور پکڑتا جائے تو فی الوقت سوشل میڈیا پر پابندی لگانا ضروری ہو جائے گا، سیاسی ٹویٹس سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور اخلاقی گراوٹ سے ہوتا ہوا غالب گمان ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا اور اب یہ ہر لحاظ سے اذیت ناک ہو چکا ہے، فرقہ واریت ایک مائنڈ سیٹ ہے اور اس کی عملی شکل دہشت گردی کی صورت اختیار کرتی ہے، وفاقی وزیر داخلہ اس سلسلے میں ابتدا ہی سے سخت اقدامات کے حامی رہے ہیں اور اب انہوں نے ایف آئی اے کو ٹاسک دیدیا ہے تو موجودہ صورتحال میں ایک مستحسن اقدام ہے، اب وہ خود اس تفتیش و تحقیق کی نگرانی کرتے رہیں تاکہ فرقہ واریت فنکشنل نہ ہوسکے، اور یہ لوگ سڑکوں پر نہ نکل آئے، پاکستان کو اب تک جو بھی نقصان پہنچا اندر سے پہنچا، باہر کی قوتوں کو الزام دینا بڑی عجیب سی بات ہے، بھلا وہ کیوں چاہیں گی کہ یہ ملک جو لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا اس میں ہر لاالہ الا اللہ پڑھنے والا مسلمان ہے اور دوسرے مسلمان کا بھائی، کسی خاندان، قبیلے، ملک کو تباہ کرنا ہو تو بھائیوں کو لڑوا دیں وہ تباہ ہوجائے گا۔
٭٭٭٭٭
مہنگائی سے حکومت کی لاپروائی مار گئی!
عوام مہنگائی کے خلاف شکایت کرتے ہیں، حکمران اپنے دونوں کان سوشل میڈیا کی طرح غلط استعمال کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں ہمیںتو نظر نہیںآتی حالانکہ وہ ایک آنکھ سے دیکھ کر دوسری سے مہنگائی تماشا نکال دیتے ہیں، کیا یہ انتظار ہو رہا ہے کہ عوام میدانوں میں نکل کر نما ز مہنگائی خاتمہ پڑھیں اور اجتماعی دعا کریں کہ یا اللہ! حکمرانوں کو بھی عوام بنا دے تاکہ پھر ان سے پوچھا جائے ’’ہن آرام ای‘‘ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اپنی واسکٹ کی ساری جیبیں ’’دھیلوں‘‘ سے بھر کر کہا جائے ’’پلے نئیں دھیلا تے کر دی میلہ میلہ‘‘ یہ گزشتہ چند دہائیوں سے جو مہنگائی دہائی زور پکڑتی جارہی ہے اور ہر دور کے حکمران اس پر کان نہیں دھرتے تو یہی ان کی سیاسی جڑوں میں بیٹھ جاتی ہے، عقلمند سیاسی جماعت برسراقتدار آکر سب سے پہلے مہنگائی کوقابو کرتی ہے، اور پورے ملک میں ایک نرخ عملاً لاگو کرتی ہے، جن ملکوں کی طرف ہمارے حکمران سیر سپاٹے اور علاج کی خاطر دوڑ پڑتے ہیں کبھی وہاں یہ سٹڈی بھی کریں کہ وہ قیمتوں کو کیسے ایک سطح پر رکھتے ہیں، اور ان کے پاس کونسا ایساسسٹم ہے کہ پورے ملک میں ہر چیز کا ایک ہی ریٹ ایک ہی معیار ہوتا ہے اور وہاں کے عوام کبھی مہنگائی کی شکایت نہیں کرتے، ہمیں اکثر یہ جواب دیا جاتا ہے کہ وہ امیر ملک ہیں، تو حضور وہ بھی کبھی غریب تھے پھر امیر بنے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ کیا، کیا ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوسکتا؟ افسوس کہ یہاں محروم رکھنا ہی حکمرانی کی رمز ہے، ہر گھر ہر خاندان کا ایک مسئلہ مشترک ہے اور وہ مہنگائی ہے، جرم بھی مہنگائی کراتی ہے اور خودکشیاں بھی، لیکن پھر بھی ساون کے اندھوں کو ہر طرف ہریالی محسوس ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
شرم کسی کو مگر نہیں آتی
شرم سب کے پاس ہے، مگر کسی کو آتی نہیں، ویسے سب شرمیلے ہیں لیکن اپنی غرض سامنے آجائے تو شرم ہے نہ دھرم، ایک دکاندار سے کہا یہی چیز جو آپ 50روپے میں دے رہے ہیں آپ کے ساتھ والا دکاندار 35روپے میں بیچتا ہے، کوالٹی بھی ایک ہے، جواب ملتا ہے ’’بیچتا ہوگا، مگر ہم یہ 50کی ہی دیتے ہیں‘‘۔ اب کر لوجو کرنا ہے، اور بے بسی ہے کہ ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے کہ ہماری کوئی سنتا ہی نہیں، اور یہ ماجرا ہمارا وہ گراں فروش دکاندار بخوبی جانتا ہے، مگر جانے نہ جانے ’’گل‘‘ ہی نہ جانے، ورنہ گل محمد عوام تو سارا جانے ہے، ایک مکان یک منزلہ ہے اس کے ساتھ والا سہ منزلہ اور یہی ترتیب پورے محلے میں نشیب و فراز کی صورت قائم ہے، قانون کیا کہتا ہے کہ ایک ہی علاقے میں مکانوں کی بلندی ایک خاص حد تک رکھی جاسکتی ہے اس سے آگے نہیں، یہ اونچ نیچ ہے یا نیچ حرکت اس کا احساس مر چکا ہے، اسلام کو صرف نماز، روزہ، حج، عمرہ تک محدود کردیا گیا ہے وہ گلیوں محلوں آبادیوں میں کہیں نظر نہیں آتا، ایک ملک ہے جہاں دو امریکی ایک مسلمان لڑکی کو بس میں تنگ کرنے والے اپنے ہی ملک کے لڑکوں سے لڑ پڑے اور جان دیدی کیونکہ ان کے پاس اسلام تو نہ تھا شرم تھی، ہمارے پاس سب سےبڑا اور اچھا دین ہے پھر بھی شرم نہیںآتی، اور جہاں نہیں آنی چاہئے وہاں بہت آتی ہے، آخر یہ سب کیا ہے بقول حشرؔ کاشمیری زندگی کیا ہے، غم کا دریا ہے، جو ہمارے ہاں کبھی اترتا ہی نہیں بس صحیح سالم سمندر میں اتر جاتا ہے، اور ہم اس پر کوئی ڈیم بھی نہیں بناتے، ویسے ہمیں شرم بہت اچھی لگتی ہے، اس لئے گنگناتے رہتے ہیں، بڑی شرمیلی ہے میری محبوبہ۔
پہلے آتی تھی!
٭....مریم اورنگزیب! عمران جھوٹ بولنے کی عادت سے مجبور ہیں،
اتنی بار یہ جھوٹا قرار دینے والا بیان نہ دہرائیں کہ اس پر جھوٹ کا گمان گزرے۔
٭....عمران خان! جے آئی ٹی کو دھمکایا گیا تو چپ نہیں بیٹھوں گا،
کرایہ داروں کو روزانہ مالک مکان دھمکاتا ہے کہ کرایہ نہ بڑھایا تو نکال دوں گا ایسے مالکان مکان کے خلاف بھی کچھ بولیں۔
٭....چودھری شجاعت! نوازشریف کیخلاف فیصلہ آیا تو ن لیگ آندھی میں پتوں کی طرح بکھر جائے گی،
مگر اس کی آپ کو فکر کیوں ہے، جب وہ بکھر جائے گی تو کیا آپ کی باری آجائے گی، آزمائش زدگان کو مزید آزمائش میں ڈالنا اچھی بات نہیں۔
٭....کوئی منائے یا نہ منائے مگر ہمارے ہاں سال میں ایک بار ’’یوم شرم‘‘ ضرور منایا جائے، اور بینرز پر لکھا جائے
کعبے کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
غالب کی جگہ کسی اور کا نام بھی لکھا جاسکتا ہے۔

 

.

تازہ ترین