• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سخت گرمی کے باوجود کچھ تحریروں اور کچھ کتابوں کی سرشاری مجھے اپنے ساتھ لئے پھر رہی ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے سید سبط حسن کے لعل وگوہر جگہ جگہ سے نکالے ہیں، حالیہ کتاب میں میری پہلی کتاب لب گویا پر مضمون بھی شامل ہے۔ یہ مضمون1990کالکھا ہوا ہے۔ اتنے عرصے بعد پڑھ کر بہت لطف آیا۔ پھر مجھے ہر مہینے میں مکالمہ مظہر جمیل کے ترجمہ کردہ ، ایلس فیض کےان خطوط کو یاد کراتا ہے جو انہوں نے فیض صاحب کو جیل میں لکھے تھے۔ فیض صاحب جیل سے تازہ نظم بھجتے، تو امروز میں شائع ہو کر بیس روپے ملتے تھے ۔ بقول ایلس، ان بیس روپوں سے چھوٹے موٹے کام ہوجاتے تھے ۔ مجھے ایلس اپنے بچپن سے یاد ہیں سائیکل چلاتی ہوئی ، پاکستان ٹائمز میں بچوں کا صفحہ مرتب کرتی ہوئی۔ میں نے بھی چھوٹے چھوٹے انگریزی میں مضمون لکھ کر بھیجے تھے اور مجھے دس روپے کا منی آرڈر ملتا تھا ۔ یہ بہت بڑی رقم تھی کہ گھر سے مہینہ کا جیب خرچ4روپے ملا کرتا تھا ۔ اسمیں سے ہر اتوار کومیں پاکستان ٹائمز اپنے لیے خرید لیا کرتی تھی فیض صاحب کے خطوط ، پاکستان ٹائمز کے اداریے اور دیگر مضمون بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ممکن ہے مظہر جمیل انکا بھی ترجمہ کر ڈالیں۔
اور اب تازہ واردان ادب فیض صاحب کا ترجمہ کردہ زاہدہ حنا کا افسانہ ہے۔ یہ ترجمہ وفات سے چند روز قبل فیض صاحب نے کرکے ایلس کو دیا کہ تم ٹائپ کرو ، اسی دوران اسپتال گئے ۔ پر لوٹ کر کفن میں لپٹ کر آئے۔ یہ زمانہ ہے1984کا ۔ زاہدہ کی کہانی کا عنوان تھا ’’ بودونابود کا آشوب ‘‘ اور فیض صاحب نے عنوان دیا The torture of to be or not to beویسے تو ادیبوں کے لئے ہر زمانہ ہی آشوب کاتھا مگر یہ زمانہ ہے جب قلعہ کی کال کوٹھڑی میں، وہ اذیت دی جاتی تھی جس پر صلاح الدین حیدر ، ثمینہ اختر اور کئی دیگر ادیبوں نے اذیت سہی بھی اور لکھا بھی زاہدہ نے یہ سب کچھ پڑھکر اور سنکر بہت اذیت زدہ کہانیاں لکھیں، جبکہ دیگر کہانیوں کا ترجمہ ثمینہ رحمان، شبانہ علوی اور یوسف شاہد نے کمال مہارت سے کیا ہے۔ ترجمہ اور وہ بھی کہانیوں کا ترجمہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، پتے کو پانی کرنا پڑتا ہے ،جوکہ ثمینہ رحمان نے بالخصوص ترجمہ کرتے ہوئے، شاہ بانو کی علاقائی ثقافت اور ماحول کے ساتھی اسکے شوہر دولہے میاں کے نوابانہ کرتوت کو خوب بیان کرتے ہوئے یہاں زاہدہ کا کمال فن نظر آتا ہے۔ شاہ بانو کا قصہ گوئی چھ ماہ تک بھارت کی عدالت کے علاوہ رجعت پسندوں کے فتوئوں میں جسطرح گھرا رہا ، پاکستان کے قدامت پرستوں نے بھلا کب یہاں پر فتوے دینے سے باز آناتھا۔ قصہ کوتا یہ ہے کہ شاہ بانوکو62سال کی عمر میں دولہے میاں گھر سے نکال دیتا ہے اور نئی دلہن لے آتا ہے۔ شاہ بانو، نان ونفقہ کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ مسلم معاشرے کا یہ پہلا مقدمہ تھا ۔ عورت اور یہ حوصلہ کرے ، بس پھر کیا تھا جتنے منہ اتنی باتیں۔ رجعت پسندوں کی ضد یہ تھی کہ شاہ بانو مقدمہ واپس لے کہ دولہے میاں نےاب یہ موقف لیا کہ اسے میں نے طلاق دینے کے بعد ، دوسری شادی کی ہے۔ وہ پڑھی لکھی لڑکی جس نے جوانی میں اپنی ماں کے گھر میں طلسم ہوشربا سےمثنوی زہر عشق تک پڑھی تھی ، اسے اٹھتے جوتا اور بیٹھتے لات سہنی پڑ رہی تھی ۔ اتنے دکھ اٹھانے والی کو جب گھر سے نکالاتو وہ سارا علم جو جوانی میں پڑھا تھا ، عود کر آیا، مگر رجعت پسندوں نے اسکا ناطقہ بند کردیا۔
پچھلے ہفتے ، مری کتاب ،بری عورت کی کتھا، کےانگریزی ترجمہ پر بحث کرنے کے لئے چھ سات غیر ملکی خواتین سفیروں نے ، میرے ساتھ مکالمہ رکھا ، ان سب نے کتاب پر جگہ جگہ نشان لگائے ہوئے تھے ۔ دوگھنٹے تک برصغیر کے پیوست زدہ معاشرے کے بارے میں حیران کن سوال کرتی رہیں۔ میں نے لکھا تھا ’’ تیرہ سالہ جیکب کو توہین کی سزا دیکر کوڑے مارے گئے ۔ وہ یہ پڑھ کر حیران تھیں۔ اب دیکھو تاریخ خود کو دہرارہی ہے اب بلوچستان میں تیرہ سالہ ان پڑھ بچے کو یہی سزا دی جارہی ہے۔ اصل میں سارے سفارت کار، پاکستان کے اشرافیہ سے ملتے، انکے فارم ہاوسز میں جاتے ہیں۔ یونہی تین سال گزار کر چلے جاتے ہیں ۔ وزیر اور اعلیٰ افسر جھوٹ بولتے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے، کہتے ہوئے ریٹائر ہوجاتے ہیں۔
زاہدہ حنا کی کہانیوں کے ترجمے نے بھی ، ہماری ثقافت اور بڑی بوڑھیوں کے رویے کو بڑی مناعیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہیں میرے سامنے علی محمد فرشی کی نئی کتاب محبت سے خالی دنوں میں ، اسکا ایک روق سامنے آکر کہتا ہے کہ میری پیاس بجھی نہیں، حتیٰ کہ میں نے ساتواں سمندر بھی پی لیا ، میری بھوک نہیں مٹی حتیٰ کہ میں نے ساتواں آسمان بھی کھا لیا‘‘۔ میں یہ دونوں لائنیں پڑھنے کے بعد ، آنکھیں بند کرلیتی ہوں ، علی محمد فرشی نے ساری نثری نظمیں لکھی ہیں۔ سلسلہ آشوب وہی ہے جو زاہدہ کےمنظر نامے میں ہے کہ ایک جگہ فرشی کہتا ہے ’’ دیوار گریہ کی قسم ، وہ تم نہیں تھے جو بارود کے ساتھ اڑادیئے گئے۔ دیوار کعبہ کی قسم۔ وہ ہم تھے ، جو ٹینکوں کے راستے پہ بچھا دیے گئے ‘‘۔ علی محمد فرشی نے کہیں مہمان پرندوں کے نام لکھے ہیں اور کہیں بتایا ہے کہ پھولوں کو بھی پھپوندی لگ جاتی ہے۔ اور دودھ سے گوبر کی بوآنے لگتی ہے ‘‘۔
یہ حساس کہانیاں ، نظمیں اور پھر ایلس کے خطوط ہمیں ابھی تک 1953کے زمانے میں واپس لئے جاتے ہیں کہ آج بھی20روپے ہاتھ میں ہوں تو سوائے ایک نیند کی گولی کے اور کچھ ہاتھ میں نہیں آتا ہے کہ اس زمانے تو 20روپے خرچ ہی نہیں ہوتے تھے، اب تو ہمارے ہاتھ چڑیا کے فاقہ زدہ گیت ہی آتے ہیں۔

 

.

تازہ ترین