• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترم ہائی کمشنر …فکرفردا …راجہ اکبردادخان

میں نے 31مارچ2017کے مراسلہ جس کا عنوان کمشنروں کا ہجوم تھا،میںآپ کی اس موضوع کے حوالہ سے توجہ دلائی تھی کہ اول تو اس ہجوم کی ضرورت نہیں اور اگر حکومت پاکستان اور پنجاب کا اس ہجوم کے بغیر اہل طریقہ سے چلنا ممکن نہیں تو ان کے پیرا میٹرز کی وضاحت ہو جانےسے شفافیت اور کمیونٹی اعتماد میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ انفرادی ایشوز نہیں تھے بلکہ ایک سے زیادہ حوالوں سے واضح انداز میں برطانوی پاکستانی کمیونٹی سے جڑے معاملات ہیں، اپ ایک نہایت سینئر کیریئر ڈپلو میٹ ہائی کمشنر ہیں۔ لہٰذا اپ سے ایسے تمام حوالوں سے اعلیٰ کارکردگی کی توقع کرنا ہمارا حق ہے۔اس کمیونٹی کو اہم ایشوز پر رہنمائی فراہم کرنا بھی ہائی کمیشن کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہونی چاہئے۔ خواہ معاملہ کشمیر پر برطانوی معاشرہ سے گفتگو کا ہویا بات’’سی پیک منصوبہ‘‘ کے خدو خال اس کمیونٹی پر زیادہ واضح کرنے کی ہو یا معاملہ بھارتی لابی کو برٹش میڈیا کے ذریعہ کمزور کرنے کا ہو،پرکہیں زیادہ موثر کام ہوتا نظر آنا چاہیے۔ ایسی کمزوریاں وطن سے محبت کرنے والی اس کمیونٹی کیلئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔ ’’جی ہم ان معاملات پر پہلے ہی سوچ رہے ہیں‘‘ ایسا جواب ہے جو اکثر و بیشتر ہر پاکستانی کو تھما دیا جاتاہے اور ایک سٹینڈرڈ جواب ہے، بہتری کیلئے کمیونٹی سے اہم ایشوز پر براہ راست مکالمہ اختیار کرلینے میں بھی کوئی بڑی ذہنی رکاوٹ نہیں ابھرنی چاہیے اور ایسا’’کمیونٹی انٹریکشن‘‘ تجاویز مانگ لینے اور منی کانفرنسز کے انعقاد کے ذریعے شروع ہونا چاہیے۔ لندن ہائی کمیشن کی نہایت کشادہ عمارت کے اندر ہی کانفرنسز ہوسکتی ہیں اور لنچ پر بھی بھاری اخراجات نہیںا ٓئیں گے اگر ایسا ہوتا رہا ہے تو اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے یہ یقیناً سفارتی کوڈ آف پریکٹس کے خلاف ہوگا کہ ہمارا ہائی کمیشن اپنے کاموں کی وضاحتیں میڈیا کے ذریعے اپنے پراکسیز (Proxies) کے ذریعے کروائے اور پبلک ریلیشنز حوالہ سے ایسا ہونے کی اجازت دینا بھی غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔ہائی کمیشن کے عملہ میں باہر کی دنیا سے نمٹنے کیلئے اہل لوگ موجود ہیں۔ ہائی کمیشن کا حالیہ نادرا کارڈز کے لوٹن اور دیگر کئی شہروں میں ایشوز پر جو بھی صورتحال تھی۔ اس پر ہائی کمیشن کے کسی اہلکار کو خود صورتحال جلد واضح کردینی چاہیے تھی۔ اس طرح جو بد گمانیاں پیدا ہوئیں وہ پیدا نہ ہوتیں اورلوگ یہ نہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ ہائی کمیشن نے اپنی ذمہ داریاں پراکسیز کے حوالے کرکے خود ہی’’کمشنرنوں کے ہجوم‘‘ میں اضافہ کردیا ہے۔ مجھ جیسے کئی پہلے سے موجود کمشنروں کے بارے میں ان کی تعیناتیوں کے متعلق جاننے سے متعلق کسی سرکاری موقف کے آنے کے منتظر تھے، اوپر سے نئے سرکاری ترجمان سامنے آگئے۔اگر ہائی کمیشن نے کسی غیر متعلقہ فرد یا تنظیم کو اپنے ایما پر میڈیا سے انٹریکٹ کرنے کی اجازت نہیں دے رکھی تو یہ معاملہ اپ کی فوری توجہ چاہتا ہے۔ نادرا کارڈز کے حوالے سے ان لوگوں کی اس ماحول تک کھلی رسائی کے حوالے سے کمیونٹی کے اندر تحفظات کافی عرصہ سے موجود ہیں اس معاملہ پر ہائی کمیشن کو فوری ایکشن لیتے ہوئے غیر سرکاری ترجمان کے اخباری بیان سے دوری اختیار کرلینی چاہئے تھی۔ خاموشی کو عام طور پر رضا مندی سمجھ لیا جاتا ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ اپ ان تمام معاملات کے حل کیلئے وقت نکال سکیں گے۔ ہائی کمیشن یہاں برطانیہ اور آئر لینڈ میں ریاست پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے معاملات شفافیت اور اہلیت سےنمٹائے جائیں۔
ہائی کمیشن کی سبکی میں یہ کمیوٹی اپنی تذلیل سمجھتی ہے اور بڑے تناظر میں ریاست پاکستان کا نام بھی اوپر نہیں اٹھتا ہائی کمیشن کو متاثرہ افراد اور لارجر کمیونٹی سے معذرت بھی کرلیتی چاہئے۔ اہل علم لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر غلطی سے بہتریاں بھی ابھر سکتی ہیں اور اس واقعہ نے ہمارے اس قومی ادارے کو Community Engagementجو بہت ساروں کی نظر میں بہت کمزور ہے، کو بہتر بنانے کیلئے ایک جواز اور موقع فراہم کردیا ہے۔ جی ہاں۔ مخصوص مواقع پر کمیونٹی اپ کیEngagement کوششوں سے آگاہ ہے۔مگر ہائی کمیشن پاکستان کیلئے ہر دم جھنڈے لہرانے والے کمیونٹی بیس کو نظرانداز کرکے اس کمیونٹی کو آبائی معاشرہ سے جوڑنے میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کررہا۔ میں اس کمیونٹی کی بات کررہا ہوں جو وٹفورڈ سے شمال کی طرف بستی ہے۔ جہاں کے ہر عوامی اجتماع میں پاکستان اور اسلام زندہ باد ۔ جہاں تحریک آزادی کشمیر زندہ باد اور جہاں ان حوالوں سے کام بھی ہوتا ہے اور ایسے نعرے بھی با آواز بلند ہوتے ہیں جہاں سے پی آئی اے کی پاکستان کیلئے ہر فلائٹ بھری ہوئی جاتی ہے۔ جہاں سے پاکستان کے کئی خیراتی اداروں کے کاروبار چلتے ہیں۔ جہاں سے ہزاروں پونڈ زرمبادلہ ماہانہ کی شکل میں پاکستانی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ جہاں کمیونٹی نے بغیر کسی رہنمائی کےاٹھتے گرتے اپنے اپ کو مضبوط کرلیا ہے اور سب سے اہم یہ کہ جہاں سے آنے والے وقتوں میں زیادہ تعداد میں برٹش پاکستانی/ کشمیری سیاستدان ابھریں گے۔ ان حوالوں سے نہ تو ہائی کمیشن کے کسی کونے میں اور نہ ہی ریاست پاکستان کے ذہن میں کوئی منصوبہ جات ہیں۔یہ ہائی کمیشن کا کام ہے کہ وہ ایسے بامقصد سیاسی اور معاشی منصوبہ جات کو کسی مربوط شکل میں مرکزی حکومت کے سامنے رکھے ایسے قومی پراجیکٹ کیلئے برطانیہ میں’’ حقیقی پاکستان‘‘ کو درمیان میں لانا پڑے گا اور اس طرح ایک فوکسڈ بحث و مباحثہ کے نتیجہ میں ایک ’’قومی پراجیکٹ‘‘ کو چند ماہ میں لانچ کیا جاسکتا ہے، لوگ آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔اس سے کمیونٹی کوہیژن بھی بہتر ہوگا۔ پاکستان کیلئے بہتر مستقبل کے چند عملی قدم بھی اٹھ جائیں گے۔ دوسری طرف ان حوالوں سے توجہ نہ دینے کے نہایت نقصان دہ نتائج ہوں گے۔ یقیناً اپ یہاں برطانیہ سے ایسے قومی پراجیکٹ کو وجود میں لانے کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے میں فخر محسوس کرینگے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

 

.

تازہ ترین