• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں قبائلی علاقوں کے چپے چپے میں گھوما ہوں ۔ان کی ہر وادی ، ہر پہاڑ اور ہر گوشہ مجھے عزیز ہے لیکن جہاں قلب و روح کو سب سے زیادہ سکون ملتا ہے ،ان میں ایک کرم ایجنسی ہے ۔ یہاں کا قدرتی حسن لاجواب ہے ۔کوہ سفید سے نکلنے والا حسین دریا، خوبصورت پہاڑ اور نظروں کو خیرہ کرنے والا سبزہ ۔ سردی میں وہاں جائیں تو برف کی چادر اوڑھے چنار کے درخت مقبوضہ کشمیر کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں ۔ بہار کے دنوں میں جائیں تو یہاں کے کھیتوں کا سبزہ یورپ کو شکست دے رہا ہوتا ہے ۔ گرمی کے دنوں میں یہاں جائیں اور سپین غر کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ہوائوں کا مزہ لیں توانسان سوات اور مری کو بھول جاتا ہے ۔ لیکن اس قدرتی حسن کو چارچاندلگائے ہیں یہاں ٖپر بسنے والے طوری،بنگش،اورکزئی،زازئی،منگل،اور پاڑہ چمکنی قبائل نے ۔ میں خو دمہمند قبائلی ہوں لیکن مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ کرم ایجنسی کے قبائل سب سے زیادہ مہذب، تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والے ایک سروے کے دوران سب سے زیادہ کرم ایجنسی کے عوام نے فاٹا کے ساتھ ادغام کے حق میں رائے دی ۔جب نظر بد نہیں لگی تھی تو یہاں پر تعلیم کی شرح خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقوںسے بھی زیادہ تھی ۔ یہاں کے باسی ادب ، شاعری اور موسیقی میں آج بھی سب سے آگے ہیں ۔اپنی قیادت تو وہ کرہی رہے تھے اس قبائلی ایجنسی نے پولیس، بیوروکریسی ، فوج اور ائیر فورس تک میں باقی ملک کو بھی قیادت فراہم کی۔ فطرت کے مظاہر کے تنوع کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس علاقے کو مسلکی تنوع سے بھی نوازا اور یہاں دو مسالک کے لوگ جمع ہوگئے لیکن افسوس کہ اس تنوع کو بعض ظالموں نے وسعت فکر کی بجائے فساد کا ذریعہ بنا دیا۔ حسب عادت ایران اور سعودی عرب اپنی جنگ یہاں لے آئے ۔ جس نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا۔ دوسری بدقسمتی کرم ایجنسی کے حصے میں یہ آئی کہ دیگر قبائلی علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی سوویت یونین کے خلاف پاکستان اور امریکہ کی جنگ کے لئے بیس کیمپ بن گیا۔ چنانچہ یہاں بھی اسلحہ کے انبار لگ گئے اور افغان مہاجرین کی آمد سے مقامی آبادی کا تناسب اور طاقت کا توازن بھی بگڑ گیا۔ اور تو اور اسامہ بن لادن اور عبداللہ عزام نے اپنا پہلا کیمپ یہاں پر معسدۃ الانصار کے نام سے قائم کیا تھا۔ پھر جب افغان اور عرب مجاہدین نے اس ایجنسی کو اپنا گڑھ بنا دیا تو لامحالہ طوری قبائل عدم تحفظ کا شکار ہوگئے اور یہاں مسلکی بنیادوں پر تنائو بڑھ گیا۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک نئے کھیل کا آغاز ہوا اور وہاں پاکستان و سعودی عرب اور ایران و انڈیا کے اتحادوںکی پراکسی جنگ گرم ہوئی تو اس جنگ کا اصل گڑھ بھی کرم ایجنسی بن گیا۔طالبان کا دور آیا اوران کا زیرقبضہ افغانستان پاکستان اور خلیجی ریاستوں وغیرہ کی تزویراتی گہرائی یا اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا ٹھکانہ بن گیا تو اس کے جواب میں ایران نے انڈیا کے تعاون سے کرم ایجنسی کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ۔ پھر جب را، این ڈی ایس اور ایرانی انٹیلی جنس کا اسٹرٹیجک اتحاد بن گیا تو ان تینوں نے بھی کرم ایجنسی پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور جواب میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ عرب ممالک نے بھی یہاں پر اپنی پراکسیز کو متحرک کیا۔ پاکستانی طالبان سامنے آئے تو فضل سعید حقانی کی قیادت میں یہاں ان کو ٹھکانہ مل گیا یا دیا گیا۔ پھر جب داعش سامنے آئی تو سعید حقانی داعش میں شامل ہوگئے اور ظاہر ہے ان لوگوں نے پہلی فرصت میں یہاں کے طوری قبائل کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ یوں تو پورا پاکستان اور بالخصوص پختونخوا یا قبائلی علاقے مذکورہ تمام جنگوں سے متاثرہوئے لیکن سوویت یونین اور پاکستان و امریکہ کی جنگ ہو، انڈیا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی جنگ ہو، افغان این ڈی ایس اور پاکستانی آئی ایس آئی کا مقابلہ ہو ،ایران اور سعودی عرب کی جنگ ہو یا پھر طالبان اور پاکستانی ریاست کی کشمکش ہو،ان سب سے ،سب سے زیادہ کرم ایجنسی متاثر ہوا ۔ جنگ اوروں کی تھی اور ہے لیکن زمین کرم ایجنسی کی ہے ، کاندھا کرم ایجنسی والوں کا استعمال ہوتا ہے اور خون ان کا بہتا ہے ۔ میڈیا میں تو صرف دھماکوں کی خبر آجاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے بسنے والوں کی زندگی گزشتہ کئی سالوں سے کئی اور حوالوں سے بھی اجیرن ہوگئی ہے ۔ گزشتہ سالوں میں بعض علاقوں سے ایک مسلک کے اور بعض علاقوں سے دوسرے مسلک کے لوگ علاقہ بدر ہوئے ۔ طالبان کے خلاف آپریشن سے قبل کئی کئی ماہ تک ٹل پاڑہ چنار روڈ بلاک رہا ۔ یہاں کے باسی لمبے عرصے تک محاصرے میں رہے ۔ وہ پشاور آنے جانے کے لئے افغانستان کا راستہ استعمال کرنے پر مجبور رہے ۔ پانی کی نعمت تو اللہ نے دی ہے لیکن اس دوران پاڑہ چنار یوں کربلا بنا رہا کہ لوگ کھانے پینے کی اشیاء نہ ہونے کی وجہ سے فاقوں پر مجبور ہوگئے ۔ طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد یہ راستہ کھل گیا اور لوگوں نے کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن پھر گزشتہ کئی سال سے افغانستان کی طرف جانے والا راستہ بند ہوا جس کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ لیکن آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے دعوئوں کے باوجود بھی کرم ایجنسی کے لوگوں کو سکون نہ مل سکا بلکہ یہاں پر خودکش حملے معمول بن گئے ۔ ہر چند ماہ بعد تخریب کاری کی ایسی واردات ہوتی ہے کہ جن میں درجنوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور تازہ ترین دلخراش واقعہ عید سے صرف دو روز قبل یہاں پر ہونے والے دھماکے تھے کہ جن میں پچاس سے زائد معصوم لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ چنانچہ تنگ آکر شہداء کے ورثا اور علاقے کے عوام دھرنا دے کر بیٹھ گئے ۔ باقی ملک میں عید منائی جارہی تھی لیکن یہاں کے متاثرین محرم کی طرح ماتم کناں رہے ۔ واقعہ کے دن جی او سی میجر جنرل نعمان وہاں پر گئے اور اگلے دن کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر بٹ نے بھی وہاں جاکر قبائلی مشران سے ملاقاتیں کیں ۔ لیکن افسوس کہ وہاں کے چیف ایگزیکٹو اور گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے وہاں جانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور وہ گورنر ہائوس پشاور میں عید انجوائے کرتے رہے ۔ پاڑہ چنار کے متاثرین کے زخم اس وقت مزید گہرے ہوگئے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ عید کے موقع پر وزیراعظم بھی لندن سے واپس آکر شہباز شریف کے ساتھ احمد پورشرقیہ کے متاثرین کے ساتھ بیٹھ گئے لیکن ان معصوموں کے پاس کسی بھی سیاسی یا مذہبی لیڈر نے آنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔احمد پورشرقیہ کے واقعہ کے متاثرین کے لئے فی فرد بیس لاکھ اور کرم ایجنسی کے لئے فی فرد دس لاکھ روپے کے اعلان نے تو جلتی پر تیل والا کام کیا۔ دیگر قبائلی علاقوں کی طرح کرم ایجنسی کے لوگوں کے زخموں پر میڈیا کی طرف سے بھی نمک پاشی یوں ہورہی ہے کہ انہیں یہ تاثر ملتا ہے کہ بڑے شہروں کی دو ہلاکتوں کو میڈیا پر جو توجہ ملتی ہے۔
وہ ان کی دو سو ہلاکتوں کو بھی نہیں ملتی اور جب انہوں نے دیکھا کہ احمد پور شرقیہ کے برعکس ان کو میڈیا پر ملنے والا وقت نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسری طرف ٹی وی چینلز نے عید کے پروگرام حسب روایت دکھانے شروع کردئیے تو ان کے غم میں محرومی اور اشتعال کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔واضح رہے کہ کرم ایجنسی کے ایک حلقے میں سرے سے انتخاب ہی نہیں ہوا اور یہاں کے عوام موجودہ اسمبلی میں حق نمائندگی سے محروم رہے۔ اس ملک میں چار حلقوں میں چند ہزار ووٹوں کے ہیر پھیر کا تو بہت تذکرہ ہوتا رہا اور ان کی بنیاد پر دھرنے بھی دئیے گئے لیکن کسی نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کرم ایجنسی کے ایک حلقے میں انتخاب کیوں نہیں ہورہا۔ میڈیا کی عدم توجہی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ فاٹا میں میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں ۔ میں خود تین سال سے یہاں جانا چاہتا ہوں لیکن قبائلی علاقوں میں باہر کے صحافی صرف اور صرف ایمبڈڈ جنرلزم کے لئے ہی جاسکتے ہیں اور وہ بھی خصوصی اجازت اور مہربانی کے بعد۔ ڈی ایس این جی وغیرہ کو وہاں لے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب ہم سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے شکایت کرتے ہیں تو وہ بھی فاٹا کی خصوصی حیثیت کا ذکرکرکے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ پولیٹکل ایجنٹ کی اجازت کے بغیر وہاں نہیں جاسکتے ۔ اس تناظر میں کرم ایجنسی کے لوگوں کی محرومی کے ذمہ دار وہ لوگ بھی قرار پاتے ہیں جو روایات اور دیگر چیزوں کی آڑ لے کر فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ ادغام کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ۔ دوسرا چیلنج اس وقت بڑا یہ درپیش ہے کہ کرم ایجنسی تین اطراف سے افغانستان میں گھرا ہوا ہے ۔ یہ بنیادی طور پر ایک ایسی وادی ہے کہ جو افغانستان کے اندر تک ہے اور بدقسمتی سے یہ سب وہ علاقے ہیں کہ جہاں پہلے طالبان کا اثرورسوخ زیادہ تھا اور اب وہاں داعش بڑی قوت بن گئی ہے ۔ تورا بورا پر اس وقت تقریباً داعش قابض ہوچکی ہے اور اگر افغان سرحد کی مناسب نگرانی نہ ہو تو وہاں سے خودکشوںکو پاڑہ چنار میںبھیجنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر افغانستان کے ساتھ سرحد بند کی جاتی ہے تو لوگوں کی معیشت تباہ ہوتی ہے اور اگر وہ کھلی رہتی ہے تو اس طرح کے واقعات کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے ۔یوں یہاں کی سرحد پر آمد و رفت کے دوران کڑی نگرانی کی بھی ضرورت ہے ۔ لیکن سب سے زیادہ ضرورت وہاں کے مقامی عوام کے اتحاد اور اتفاق کی ہے ۔ وہاں پر رہنے والے ہر مسلک کے قبائلیوں کو بھائی بھائی بننا ہوگا۔ انہیں فرقہ اور مسلک سے بالاتر ہوکر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا دوست اور دشمن ایک ہے ۔ کبھی ایک مسلک کی اور کبھی دوسرے مسلک کی باری ہوتی ہے لیکن جب تک وہ آپس میں شیروشکر نہیں ہوں گے ،اسی طرح لاشیں اٹھاتے رہیں گے ۔ کرم ایجنسی کا موجودہ المناک واقعہ اور دردناک صورت حال اس بات کا بھی درس دیتے ہیں کہ فاٹا کو جلد از جلد خیبر پختونخوا کا حصہ بنا دینا چاہئے تاکہ یہ علاقے اسی طرح بے آسرا نہ رہیں اور ملک کے باقی حصوں کی طرح یہاں کابھی والی وارث معلوم ہوسکے ۔ پاڑہ چنا ر کی صورت حال باقی ملک کے لئے ایک سبق بھی ہے ۔ ہم نے اگر سعودی عرب اور ایران کو شٹ اپ کال نہیں دی اور اگر ان کو پاکستان کے اندر اپنی پراکسی وار جاری رکھنے دی تو خاکم بدہن پورا پاکستان پاڑہ چنار بن جائے گا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں ممالک اور ان کی پراکسیز کے بارے میں بھی اسی حساسیت کا مظاہرہ کیا جائے جو ہم انڈیا اور امریکہ یا پھر ان کی پراکسیز کے بارے میں کررہے ہیں ۔ ان پر واضح کردیا جائے کہ وہ ہمارے دوست اور بھائی جیسے پڑوسی ضرور ہیں لیکن ان کی خاطر ہم اپنے ملک کو جہنم نہیں بناسکتے ۔ اگر سعودی اور ایرانی ہمارے دوست ہوکر بھی اپنے اپنے ملکوں میں ہمارے لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دیتے اور اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ پاکستان کی جنگ کو اپنے ہاں لے آئیں تو ہم ان کو یہ اجازت کیوں دیں ۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ سعودی عرب یا ایران میں پاکستانی اور انڈین کو لڑنے دیا گیا ہویا پھر اپنے کسی شہری کو یہ حق دیا ہو کہ وہ پاکستان کے حق میں یا پھر انڈیا کے حق میں مظاہرے کریں۔ اگر نہیں تو پھر ہم دوسروں کی جنگوں کو اپنے ملک میں کیوں لائیں ۔ جن کو پاکستانی مفاد سے زیادہ سعودی یا ایرانی مفاد عزیز ہے ، ان کو متعلقہ ملک بھجوادیا جائے تاکہ وہ وہاں خوب اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرسکے ۔پاڑہ چنار کے زخموں کو مزید گہرا کرنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم فوراً وہاں جائیں ۔ ان لوگوں سے تعزیت کریں ۔ ان کے مطالبات سنیں ۔ سیاسی قائدین کو بھی وہاں جانے کی خصوصی اجازت دی جائے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سراج الحق، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق، اسفندیارولی خان اور عمران خان مل کر وہاں جائیں اور وہاں کے تمام قبائل کے مشترکہ جرگے سے ایک ساتھ مخاطب ہوں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پاکستان کی خاطر مولانا فضل الرحمان ، مولانا سمیع الحق اور سراج الحق وہاں جائیں ۔ اگر اجازت نہ ملے تو کم ازکم وہ پشاور میں سانحہ پاڑہ چنار کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی اور مجالس کا انتظام کریں ۔ یہ پاکستانیت کا تقاضا بھی ہے اور یہ اس آگ کو باقی ملک میں پھیلنے سے روکنے کا واحد راستہ بھی ہے۔

تازہ ترین