• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا المیہ کیا ہے؟ ہماری ہڈیوں میں قرطبہ کا قاضی اتر چکا ہے۔ ’قرطبہ کا قاضی‘ امتیاز علی تاج کا ایک کمزور سا یک بابی ڈرامہ تھا جو عشروں تک ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ رہا۔ اس تمثیل میں قرطبہ (اندلس) کے مسلمان حکمران عبدالرحمن الثالث کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا گیا تھا۔ امتیاز علی تاج نے لکھا کہ عبدالرحمن نے اپنے سگے بیٹے عبداللہ کو اپنے ہاتھ سے سزائے موت دی کیونکہ اس نے ایک عورت کی محبت میں اپنے رقیب کو قتل کر دیا تھا اور شہر بھر میں کوئی اس کے بیٹے کو سزائے موت دینے پر تیار نہیں تھا۔ کچھ مورخین کا البتہ بیان ہے کہ یہ واقعہ 949ء میں پیش آیا تھا اور عبدالرحمن نے اپنے بیٹے کو بغاوت کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ ہمیں بہرحال قرطبہ کا قاضی بہت پسند آیا۔ انصاف کا استعارہ، تن تنہا اصول پر ڈٹ جانے والا، بدعنوان ہجوم میں جگمگاتا ہوا ہیرا۔ ہم نے اپنی مختصر سی تاریخ میں کئی بار قرطبہ کا قاضی دریافت کیا لیکن اکثر نظریہ ضرورت آڑے آیا۔ آخری بار جون 2012 میں معلوم ہوا کہ قرطبہ کے قاضی اور انصاف میں وہی تعلق ہے جو ارسلان افتخار اور شاہ تعمیرات المعروف بہ امیرالبحر میں تھا۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں وفاق، تحریری آئین اور پارلیمنٹ جیسے پیچیدہ مسائل سے دست و گریباں ہیں۔ یہاں اختیارات میں علیحدگی کا اصول کارفرما ہے۔ اور جدید قومی ریاست میں قرطبہ کا قاضی کام آتا ہے اور نہ الحمرا کی کہانیاں۔
ہمارے تعلیم یافتہ طبقے میں اقوال زریں یاد کرنے اور دہرانے کی روایت بہت پختہ ہے، اکثر سیاق سباق سمجھے بغیر۔ ہم پیٹرک ہنری کا قول ’مجھے آزادی دو یا موت‘ محمد علی جوہر سے منسوب کر دیتے ہیں۔ ماؤزے تنگ کا جملہ جمال عبدالناصر کے منہ میں رکھ دیتے ہیں۔ ہمیں غرض خطابت میں جنون کا رنگ بھرنے سے ہے، تاریخ جائے بھاڑ میں۔ گزشتہ دہائی میں ونسٹن چرچل کا یہ قول بلامبالغہ درجنوں بار پڑھا اور سنا کہ عدالتیں اپنا کام کر رہی ہوں تو ہمارا بال بیکا نہیں ہو سکتا۔ صاحبان فکر اس پر غور نہیں کرتے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران چرچل اپنے لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے برطانوی عدالتوں کا حوالہ دے کر دراصل یہ بتا رہا تھا کہ برطانیہ میں نہ تو ماسکو ٹرائل ہوتے ہیں اور نہ کینگرو کورٹ لگتی ہے۔ چرچل نے یہ نہیں کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو تالا لگا دیا جائے، آئین کو طاق میں رکھ کر نہایت تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور ہیرے جیسے افراد پر مشتمل ایک کابینہ گھڑ لی جائے۔ جارج پنجم کو جدہ روانہ کر دیا جائے، بکنگھم پیلس میں آئی ڈی پیز کے لئے کیمپ بنا دیا جائے۔ غریب چرچل تو یہ کہتا تھا کہ عدالت قانون کے لفظ کی پابند ہے، گویا کاروبار مملکت معمول کے مطابق جاری ہے، شہری آزادیاں محفوظ ہیں اور جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے۔ عدالت خلا میں کام نہیں کرتی۔ ایک پھیلے ہوئے وسیع نظام کا حصہ ہوتی ہے۔
بھائی انتظار حسین لکھتے تھے کہ مدینہ ہمارا خواب ہے اور کوفہ ہماری تعبیر۔ عزیزان محترم، قرطبہ کا قاضی ہمارا خواب ہے اور جے آئی ٹی ہماری تعبیر۔ اسی طرح ہم نے انقلاب اور تبدیلی کے نعروں کا بھی حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ بہتری کا خواب تو انسانوں کی اجتماعی میراث ہے۔ ہم اس خواب کو کبھی عدالت کی سیڑھیوں پر رکھ آتے ہیں، کبھی توپ کی نال میں آویزاں کر دیتے ہیں۔ کبھی شیخ الاسلام کی خانقاہ پر اس خواب کا نذرانہ چڑھا دیتے ہیں۔ چنانچہ سیلاب کی پہلی لہر کے ساتھ ہی ہمارے مفروضہ سہارے نمک سے بنے ہوئے پتوار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک حقیقت تو یہ سمجھنی چاہیے کہ سیاسی بندوبست، معیشت کی ساخت اور سماجی ڈھانچوں میں نامیاتی تعلق ہونا ضروری ہے۔ ہم نے قومی ریاست کے بیشتر ادارے غیرملکی حکمرانوں سے وراثت میں پائے۔ ہماری معیشت پیداواری نہیں ہے اور ہم معاشرت کو ماضی کے کسی نقطے پر منجمد کر دینا چاہتے ہیں۔ سیاست، معیشت اور معاشرت میں یہ خلیج ہمارے بحران کی بنیاد ہے۔ ہمارے عوام کے ارتقا اور اداروں کی نشو ونما میں بہت فاصلہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان تقسیم ہوا تو پاکستان کے حصے میں متحدہ ہندوستان کے صرف 17 فیصد مالی وسائل آئے۔ جب کہ برٹش انڈین فوج کا 33 فیصد ہمارے حصے میں آیا۔ اور فوج بھی ایسی جو نوآبادیاتی حکمرانوں کا دست و بازو رہی تھی۔ یہ جو ہمیں منظم ترین ادارہ ہونے کی خبر بار بار دی جاتی ہے، اس میں یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ 80 کی دہائی میں قرضوں کی واپسی شروع ہونے سے پہلے تک ہر برس وفاقی بجٹ کا اوسطاً 60 فیصد حصہ فوج پر خرچ ہوتا تھا۔ موجودہ معاشی تصویر میں عسکری مفادات کا حصہ فی الحال نظر انداز کر دیں۔ ایک اور مثال لیتے ہیں۔ ہمارا قانون تحریری اور کوڈی فائیڈ ہے لیکن ایک عام تعلیم یافتہ شہری بھی قانون سمجھنے سے قاصر ہے۔ آدھی آبادی ناخواندہ ہے۔ ناخواندہ اور غریب افراد قانون سے انصاف پانے کی بجائے ایک زورآور اور اندھے شکنجے میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر ریاستی ادارے عوام سے زیادہ ترقی یافتہ اور منظم ہوں تو جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے۔ عوام کو طاقتور بنانے کا واحد ذریعہ تعلیم ہے لیکن تعلیم ہماری ترجیحات میں بہت نیچے آتی ہے۔ اور جو تعلیم ہم دے رہے ہیں، اس کی دیگر کمزوریوں کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کا ذہنی سانچہ ہی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان مقبولیت پسند ہے، پیچیدہ مسائل کے لئے سادہ نسخے تجویز کرتا ہے۔ نرگسیت زدہ ہے، تعلیم کو تہذیبی ذمہ داری سمجھنے کی بجائے مالی اور سماجی اثر و رسوخ کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ ذہن میں غصے کی سطح بہت بلند ہے اور اس کی بنیادی وجہ دوسروں کے دکھ سے بے گانگی ہے۔ اقربا پروری بھی تو خود غرضی ہی کی ایک صورت ہے۔ سیدھے راستے پر چلنے میں ہمیں شرم آتی ہے۔ ٹریفک کا اشارہ لال دیکھتے ہی ہم موٹر سائیکل کو فٹ پاتھ پر چڑھا کر آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ ایسے ذہن کو آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا ہے، اسے نعروں کی گھن گرج سے متاثر کیا جا سکتا ہے، اسے شخصیت پرستی پر مائل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ذہن تبدیلی کو مسلسل عمل کی بجائے ایک واقعہ کے طور پر دیکھتا ہے۔ عالمی منظر پر اپنی فرمائش پوری ہوتی نظر نہ آئے، تو ہمارا نوجوان ایک جرأت مندانہ اقدام کے ذریعے طاقت کا توازن بدل ڈالنا چاہتا ہے۔ جرأت کا یہ مفہوم بار بار ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسا ذہن نہ انصاف کا ادراک کر سکتا ہے اور نہ آزادیوں کے تحفظ کے لئے پرجوش ہوتا ہے۔ ہمارے جمہوری نظام میں بہت سے رخنے ہیں۔ ہمیں قرطبہ کا قاضی انصاف نہیں دے سکتا کیونکہ ہم آزادی، حقوق اور ذمہ داری کی مثلث کے زاویے نہیں سمجھتے۔ جو قوم ایک موہوم قضیے کی مدد سے تاریخ کا مقدمہ جیتنا چاہے، اسے بھول جاتا ہے کہ اندلس کا شہزادہ ایک عورت کی محبت میں قتل ہوا تھا یا تخت کی لڑائی میں کام آیا تھا۔

تازہ ترین