• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں بہت خوش نصیب ہوںکہ میرے ادیب اور شاعر دوست اپنی نئی مطبوعات مجھےارسال کرتے ہیں۔ تقریباً تین چار کتابیں مجھے روزانہ موصول ہوتی ہیں۔ اوسطاً ایک سو کتابیں ماہانہ بنتی ہیں۔ ظاہر ہے میرے لئے دن میں تین چار کتابیں پڑھنا ممکن نہیں بس انہیں سونگھ ہی سکتا ہوں۔ ایک آدھی کتاب پڑھ بھی لیتا ہوں۔ ان میں سے کئی کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن پر کچھ لکھنے کو جی بھی چاہتا ہے مگر کتابوںپر تبصرہ میرے کالم کے دائرہ کار میں نہیں آتا تاہم کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کتاب ’’ہوش و خرد کا شکار‘‘ کرلیتی ہے۔ میرے ساتھ یہ سلوک عرفان جاوید کے خاکوں کی کتاب ’’دروازے‘‘ نے کیا۔ میں نے یہ کتاب تقریباً تین ماہ قبل پڑھی تھی۔ روز سوچتا تھا کہ آج لکھوں گا، کل لکھوں گا مگر پاکستانی قوم کو کچھ لوگوں اور کچھ اداروں نے جس گرداب میں پھنسا رکھا ہے ہر بار تو جہ اس طرف چلی جاتی تھی اور کتاب پر کچھ لکھنےکا ارادہ دھرے کادھرارہ جاتا تھا!
’’دروازے‘‘ پر کچھ لکھنے سے قبل میں دو چار باتیں اس کےمصنف کے بارے میں آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ اگر اس شخص سے نہیں ملے تو مجھے بتایئے کہ پھر آپ ملتے کن لوگوں سے رہے ہیں؟ اس شخص سے ملاقات ایک خوشگوار دن کے آغاز کی طرح ہے۔ نہایت مہذب، مودب اور دوستوں سے بے پناہ محبت کرنے والا! عرفان جاوید بیوروکریٹ ہے اور ایک ایسی پوسٹ پر فائز ہے جہاں یار لوگ لاکھوں روپوں کی دہاڑی لگاتے ہیں۔ مگراس کا معدہ حرام ہضم ہی نہیں کرسکتا۔ عرفان ایک صاحب ِ مکالمہ ادیب ہے مگر وہ جب اپنے کسی سینئر سے ملتاہے تو لگتا ہے اسے کچھ سکھانے نہیں بلکہ اس سے کچھ سیکھنے کے لئے اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ عرفان ملنسار اتناہے کہ ملاقات میں وقفہ کچھ زیادہ پڑ جائے توبے چین ہو جاتا ہے اور ملنے کا کوئی رستہ نکال لیتا ہے!
عرفان کے بارے میں بتانے کی ابھی بہت سی باتیں ہیں مگربہتر ہوگا کہ آپ خود اس سے ملیں اور اس کی شخصیت کی مختلف جہتیں دریافت کریں۔ اس سے ملاقات اور اسے مکمل طور پر جاننے کا بہترین طریقہ اس کی کتاب ’’دروازے‘‘ کا مطالعہ ہے جب وہ ’’صاحب ِ خاکہ‘‘ کی شخصیت کی پرتیں کھولتا ہےتو آپ کو اس کے ساتھ ساتھ خود اس کی ایسی بہت سی صفات نظرآتی ہیں جن میں سے صرف چند ایک کا میں نے ابھی ذکر کیاہے۔ میرے خیال میں ’’دروازے‘‘ میں جن شخصیات کو خاکے کا موضوع بنایا گیاہے، ان میں سب سے زورآور شخصیت شکیل عادل زادہ کی صورت میں سامنےآتی ہے۔ عرفان ان کی شخصیت کو کھوجتا چلا جاتا ہے اور اس کا تجسس پورے کے پورے شکیل عادل زادہ کو آپ کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ شکیل عادل زادہ نے اپنی زندگی کا آغاز کہاں سے کیا اور کیسے کیسے مراحل سے گزر کر شکیل عادل زادہ کی صورت میں اپنے مداحین کے سامنے آئے، ان کی شخصیت کی دلچسپ پرتیں بھی بہت ہیں مثلاً اپنی بیوی کو وہ ’’بیوہ‘‘ کہتے ہیں، اپنے عہد ِ جوانی میں ایک بہت نامور ادیب کو لڑکی بن کر اتنے خوبصورت خط لکھے کہ وہ بن دیکھے ان پر عاشق ہو گئے اور کئی سو میل کا سفر طے کرکے ان سے ملنے ان کے گھر چلے آئے، مگر اس ’’مغرور حسینہ‘‘ نے ان سے ملاقات نہ کی تاہم ایک ’’باکمال‘‘واقعہ برصغیر کی حسین ترین ہیروئین مینا کماری کے گھر اور ان کے ٹی وی لائونج سے ان کے بیڈ روم تک ان سے ہونے والی باتوں کے حوالے سے بھی ہے۔ جس میں شکیل کے علاوہ خود مینا کماری کی شخصیت کے بہت سے گوشے بھی سامنے آتے ہیںاور پتہ چلتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں دلوں پر راج کرنے والی یہ ہیروئین پیار کے لئے کتنی ترسی ہوئی تھی اور اس کے دکھ کتنے گہرے تھے۔ شکیل عادل زادہ کے اس خاکے میں ان کی جہاں گردی ، ان کے ایڈونچرز، ان کی پاکستان آمد اور پھر ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کے اجرا سے اس کی بندش تک کا بیان قاری کا دھیان اِدھر اُدھر ہونے ہی نہیں دیتا۔ اس خاکے میں کراچی کے کتنے ہی ادیبوں کے ’’خاکے‘‘ بھی نظر آتے ہیں!
آئی ایم سوری قارئین شکیل کے خاکے کا تذکرہ کچھ اتنا طویل ہو گیا ہے کہ لگتا ہے ڈھائی سو صفحات کی اس کتاب میں صرف یہی ایک خاکہ ہے حالانکہ اس میں میرے مرشد احمد ندیم قاسمی کا خاکہ بھی ہے، جن کی پرکشش شخصیت کے سبھی خدوخا ل پوری خوبصورتی کے ساتھ قاری کے سامنے آتے ہیں۔
جو لوگ اس عہد ساز ادیب اور عظیم انسان سے ملاقات سے محروم رہے ہیں وہ یہ خاکہ نہ پڑھیں ورنہ ان کی باقی ساری عمر اس ملال میں مزیداضافے کا باعث بنے گی کہ ان کے عہد میں ہوتے ہوئے بھی وہ ان کی دید کی لذت سے کیوںمحروم رہے؟ قاسمی صاحب کے خاکے کا عنوان عرفان جاوید نے ’’پارس‘‘ رکھا ہے اور اس ایک لفظ میں ان کی پوری شخصیت سما جاتی ہے! قاسمی صاحب کی ’’فنون‘‘ اور ’’مجلس ترقی ادب‘‘ کے دفاتر میں ہونے والی محفلوں کا ذکر پڑھتے ہوئے میں اداس ہو گیا۔ ان محفلوں میں ، میں بھی شریک ہوتا رہا ہوں۔ یہاں نابغہ ٔ روزگار شخصیات جمع ہوتی تھیں اور مجھ ایسے ناکارہ نوجوان بھی جو یہاں علمی بحثیںسنتے تھے اور درمیان درمیان میں لطیفوںکا دور بھی چلتا تھا جس میں ہم ایسے بھی ’’منہ ماری‘‘ کرلیتے تھے۔ عرفان بے حد شائستہ نوجوان ہے۔ قاسمی صاحب سمیت اس کےسارے خاکے شخصیت کےمثبت رخ پیش کرتے ہیں کہ وہ خود بھی تو ایک مثبت سوچ کا حامل ادیب ہے البتہ کہیں کہیں اپنے ممدوحین کی شخصیت کے کسی کمزور پہلو کو بھی اتنی ’’محبت‘‘ سے بیان کرتا ہے کہ ممدوح کی وہ کمزوری اس کی خوبی لگنے لگتی ہے۔ عرفان جاوید نے قاسمی صاحب کی شخصیت کو مکمل طور پر پیش کیا ہے!
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں کہ اس کتاب میں تو اے حمید، احمد فراز، مستنصر حسین تارڑ، عبداللہ حسین، احمد بشیر، جاوید چوہدری کے علاوہ تصدق حسین اور محمد عاصم کے خاکے بھی توجہ طلب ہیں۔ اگر میں ان سب کے حوالے سے رائے زنی پر ’’اتر‘‘ آیا تو کالم کی طوالت ایک کتاب کی ضخامت کے برابر ہو جائے گی البتہ مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ عرفان جاوید کو مستنصر حسین تارڑ کی تعریف کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ میرا یہ دیرینہ دوست اپنی تعریف میں خودکفیل واقع ہوا ہے..... اور اب چلتے چلتے ’’دروازے‘‘ کے ایک پہلو کا بیان..... عرفان نے مختلف خاکوں کے درمیان صبح کے مناظر، شام کے مناظر اور رات کے مناظر کے پس منظر میں جن رونقوں اور جن اداسیوں کی نقشہ کشی جزئیات کے ساتھ کی ہے اس کی اس دسترس پر میں حیران ہوں.....اس کے علاوہ عمارتوں اور شہروں کے تاریخی پس منظر اور ان کے علاوہ بہت کچھ جن سے میں پہلے واقف نہیں تھا نہ صرف یہ کہ ان سے واقف ہوا ہوں بلکہ عرفان کی علمی اور تخلیقی دیدہ ریزی کا بھی قائل نہیں، گھائل ہوا ہوں..... اور ہاں جاوید چودھری سے اس کی محبت اور دوستی پتھر پر لکیر کی طرح ہے اور میرے اس نامور دوست جس کی تحریر کے علاوہ جس کی صحبت بھی بہت دلکش ہے، اس کا خاکہ بھی عرفان جاوید نے ایسا لکھا ہے کہ جاوید چودھری سے بھی ملنے کو جی مچلنے لگتا ہے!
ویل ڈن مائی ڈیر عرفان جاوید!!

تازہ ترین