• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی میدان گرم ہے۔ دو سیاسی قوتیں نبرد آزما ہیں۔ ایک نواز شریف کی پارٹی ہے اور ایک وہ پارٹی ہے جو ستر سال سے ملک پر حکومت کر رہی ہے۔ اس کشمکش میں دوسری پارٹی کا چہرہ اگرچہ عمران خان اور انکی پارٹی ہے، لیکن تحریک انصاف سے اگر عمران خان کی مشہور و معروف "انگلی" نکال دی جائے تو پیچھے کیا بچے گا؟ چند لوٹے، کچھ کھوٹے سکے اور کباڑیے کی دکان۔ اس دنگل کا اکھاڑا بھی بظاہر جوڈیشل اکیڈمی میں سجا ہوا ہے لیکن جو کچھ جوڈیشل اکیڈمی میں ہو رہا ہے اسے زیادہ سے زیادہ دنگل کی مشق کہا جا سکتا ہے، حتمی دنگل کا اکھاڑا بہر حال شاہراہ دستور پر ہی سجے گا۔
نواز شریف کی پارٹی جب مٹھایاں بانٹ رہی تھی تو عمران خان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ مٹھایاں کیوں بانٹ رہے ہیں۔ لیکن اعتزاز احسن کو سب سمجھ آ گئی تھی کہ کیا ہوا ہے۔ نواز شریف کو وقت چاہئے جو انہیں مل گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے معاملے کو جے آئی ٹی کے سپرد کر دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملا جلا ردعمل فطری تھا۔ جب سپریم کورٹ کے بنچ میں ہی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا تو ردعمل ایک جیسا کیسے ہوتا۔ سپریم کورٹ میں جو بھی کارروائی ہو رہی تھی اس پر فوجداری قانون کا پہلو غالب تھا اورجسٹس کھوسہ جو فوجداری قانون پر اپنی گرفت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، کا فیصلہ سب کو معلوم ہے۔
خیر فیصلہ آتے ہی ن لیگ کی آئندہ کی حکمتِ عملی کے خدو خال واضح ہونا شروع ہو گئے۔ اول، جے آئی ٹی بنائے جانے کے معاملے کو زیادہ سے زیادہ طول دیا جائے۔ دوم، جے آئی ٹی بن جائے تو اس کو متنازع بنایا جائے اور اسکی ساکھ پر ایسے ایسے سوالیہ نشان چھوڑے جائیں کہ عوام کی نظر میں اسکی وقعت ختم ہو جائے۔ سوم، جب جے آئی ٹی اپنی رپورٹ پیش کر دے تو پھر اسکے نتیجے میں سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی کو طول دیا جائے۔ چہارم، سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی سخت قانونی مزاحمت کی جائے۔ پنجم، اگر پچھلی ساری کوششوں کے باوجود بھی انتخابات سے قبل ناموافق فیصلہ ناگزیر ہو جائے تو حتی الوسع کوشش کی جائے کہ نواز شریف کی سیاسی وارث یعنی مریم نواز شریف اسکی زد میں نہ آئیں۔
اس حکمتِ عملی کے پہلے نکتے پر زیادہ کامیابی نہیں ہوئی، سو جے آئی ٹی بلا تاخیر بن گئی بلکہ وہ تیزی سے اپنی رپورٹ مرتب کرنے کی طرف بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسرے پہلو میں البتہ نواز لیگ کچھ کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کئی سوال ایسے ہیں جو لوگوں کے ذہنوں پر اثر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلا یہ پوچھا جا رہا ہے کہ پانامہ اسکینڈل آنے کے بعد ایک لمبے عرصے تک سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کیوں نہ کی؟ کیوں اسلام آباد کو بند کرنے کیلئے ہونے والے مارچ کے تناظر میں اس کیس کو بظاہر عجلت میں سماعت کیلئے رکھا گیا؟ جے آئی ٹی میں دو ایجنسیوں کے ارکان کی شمولیت جنکا قانونی مینڈیٹ صرف فوج کے اندرونی معاملات یا بیرونی مخالف ایجنسیوں کے معاملات تک محدود ہے، بذاتِ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پھر جے آئی ٹی بننے سے پہلے کی جانے والی واٹس ایپ کالزاور تفصیلی میڈیا مانیٹرنگ پر اٹھنے والے سوالوں سے اس سارے عمل میں دوسری پارٹی کے کردار کے بارے میں اس تاثر کو تقویت ملی جو تاثر حکمران جماعت عوام یا کم از کم اپنے ووٹ بنک کو دینا چاہ رہی ہے۔ جے آئی ٹی کی طرف سے حسین نواز کی تصویر لیک کئے جانے، اس حرکت میں ملوث فرد، افراد یا ادارے کے نام کو خفیہ رکھنے، اور سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے کو نظر انداز کرنے سے بھی نواز لیگ جے آئی ٹی کی ساکھ کو متاثر کرنے کی حکمت عملی میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے جس سے نہ صرف اسکو سیاسی فائدہ ہو رہا ہے بلکہ اگلے مرحلے میں نواز لیگ اس سے قانونی فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرے گی۔ جی ہاں! وہ اگلا مرحلہ جو سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش کئے جانے کے بعد شروع ہونا ہے۔ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ نواز شریف کے خلاف آئے گی لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے نواز شریف کو جے آئی ٹی کا "راہ فرار" مل سکتا ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اعتزاز احسن کی قومی اسمبلی کے باہر کی جانےوالی تقریر کے مندرجات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ نواز شریف کے خلاف آ گئی، تو پھر سپریم کورٹ کی کارروائی کو نہ صرف طول دیا جائے گا بلکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو جرح کے عمل سے گزارنے کا مطالبہ بھی سامنے آئے گا۔ فوجداری قانون کی الف ب سے واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ ملزم کو تفتیشی رپورٹ، تفتیشی افسران کی غیر جانبداری اور تفتیشی عمل کی شفافیت کو عدالت میں چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے۔ کوئی فوجداری ٹرائل تفتیشی افسر یا افسران پر جرح کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اپنی حکمت عملی کے چوتھے پہلو پر عمل درآمد کیلئے نواز لیگ کو جو واحد چیز درکار ہو گی وہ ایک اچھا فوجداری ٹرائل کا وکیل ہو گا، جس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی فوجداری ٹرائل نہیں ہو گی۔ لیکن فوجداری وکالت کا تجربہ رکھنے کی وجہ سے میری سمجھ سے باہر ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو جرح کے عمل سے گزارے بغیر اور جرح میں سامنے آنے والی خامیوں کو فوجداری اصول ہائے قانون کی کسوٹی پر پرکھے بغیر سپریم کورٹ نواز شریف کے خلاف کیسے فیصلہ دے پائے گی؟ لیکن اگر یہ سب کچھ بھی ہوگیا تو بھی نواز لیگ کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پانامہ اسکینڈل آنے سے بہت پہلے ہی مریم نواز شریف کو سیاسی جانشین کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ سو نواز لیگ کی حکمت عملی یہ ہو گی کہ اگر نواز شریف نا اہل ہو بھی گئے تو اگلے انتخابات میں مریم نواز کو وزیر اعظم کی امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا جائے گا۔ اسی لئے دوسری پارٹی کی طرف سے سرتوڑ کوشش نظر آ رہی ہے کہ پانامہ کے تیر سے ایک نہیں بلکہ دو شکار کئے جائیں۔
نواز لیگ کی حکمت عملی بظاہر مضبوط نظر آرہی ہے لیکن دوسری پارٹی بھی دھن کی پکی ہے۔ سو مقابلہ سخت ہے اور حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ لیکن ماضی کے برعکس یہ توقع ضرور کی جا سکتی ہے کہ اس دفعہ پارٹی اتنی جلدی اوور نہیں ہو گی۔

تازہ ترین