• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ملک میں کوئی سیاسی بھونچال آنیوالا ہے؟ یا سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ کیا نئے انتخابات ہونے جارہے ہیں؟ یا وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لانا ہوگی ۔کیا حکمراں جماعت کو بڑی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ ہے؟ اور اس ساری صورتحال میں حکمران کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اپوزیشن کیا سوچ رہی ہے؟ عید کے بعد ان سارے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لئے سیاسی بحث اور گرمی میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ سارے سیاسی پنڈتوں اور ماہرین کے پاس کسی سوال کا بھی تسلی بخش جواب نہیں ہے لیکن ہر کوئی اپنا نکتہ نظر ضرور پیش کر رہا ہے اور اگر مگر کی چٹنی کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے کے برگر بیچنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ سیاسی پنڈتوں کا ایک گروپ کہہ رہا ہے کہ جے آئی ٹی ساری بھاگ دوڑ، ساری طلبیوں، گھنٹوں سوالات کے بائونسرز مارمار کر ہلکان کرنے کے باوجود ایسا کوئی نیا نتیجہ نکالنے میں کامیاب نہ ہوگی جس سے سپریم کورٹ کے باقی تین جج صاحبان کسی ٹھوس بات یا جرم کو بنیاد بنا کر وزیراعظم کو چلتا کریں جبکہ سیاسی پنڈتوں کا ایک گروپ کہہ رہا ہے ، بس جے آئی ٹی کے 60روز مکمل ہونے کی دیر ہے اور جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہوتے ہی چند روز میں یہ فیصلہ آجائے گا کہ حکمراں بیرون ملک جائیداد کی خریداری کی منی ٹریل مہیا کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لئے فیصلہ حکمرانوں کے خلاف دے دیا جائے گا۔ پہلی صورت میں کہ اگر جےآئی ٹی کی تحقیقات کی رپورٹ حکمرانوں کے خلاف نہیں جاتی تو میاں محمد نوازشریف وزیراعظم برقرار رہیں گے لیکن اس صورت میں اپوزیشن حکومت کے خلاف دو محترم جج کے فیصلے جوکہ وزیراعظم کے خلاف تھے کو بنیاد بنا کر استعفے کا مطالبہ کریگی،دھرنا دیگی اور فوری انتخابات کا یا ان ہائوس تبدیلی کا مطالبہ کریگی ، سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں سیاست کے ماہر تجزیہ نگار جو ایوانوں کے اندر تک اور گھرانوں کے اندر کی چہ میگوئیاں تک رسائی رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ شریف فیملی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں پارٹی اور دیگر خطروں سے بچنے کے لئے واحد حل حمزہ شہباز شریف ہے اور اس حوالے سے دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی پیشی پر حمزہ شہباز کا طویل عرصہ کے بعد اپنے تایا کے ساتھ پیش پیش ہونا اور پھر چوہدری نثار علی خان کا وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کی پیشی پر انکی گاڑی کو ڈرائیوکرکے لانا یہ سارے ثبوت ہیں کہ انہوں نے بھی اپنی سیاسی طاقت کا سارا وزن شہبازشریف یعنی حمزہ شہباز کے پلڑے میں رکھ دیا ہے ۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ جو پانامہ کے حوالے سے طویل عرصہ خاموش رہے اب زور و شور سے بول بھی رہے ہیں اور دونوں بھائی ایک مرتبہ پھر شیروشکر ہوچکے ہیں۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی کیاگیا ہے کہ کسی دوسرے کے سر پر ہاتھ رکھنے کی صورت میں پارٹی کی صفوں میں بغاوت کا اندیشہ ہے۔ جبکہ اسمبلیوں کو توڑنے اور نئے انتخابات کا اعلان، کئی ایسے کٹے اور کٹیاں کھولنے کے مترادف ہوگا جنہیں باندھنے کے لئے ناکامی ہی ناکامی ہوگی اور خلاف فیصلے کی صورت میں اقتدار کے ایوانوں میں اگر کو ئی ’’ہمدرد‘‘ نہ ہو ا تو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہ ملنے کا نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔ لیکن کچھ پر دھان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس فا ر مو لے میں بھی رخنہ ڈال دیا گیاہے۔ دھیمے لہجے اور سرگوشی کے عالم میں ماہرانہ رائے دینے والے کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک وعدہ معاف گواہ سامنے آنے والا ہے جس کو سب کچھ دان کردیاجائیگا اور اس وعدہ معاف گواہ کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ زندگی کو انجوائے کرنا چاہتے ہو اور اقتدار کے ایوانوں میں تیرتے رہنا چاہتے ہو تو یہ ’’ فیصلہ‘‘ تمہار حق میں بہتر ٹھہرے گا۔ ورنہ حالات بڑے تنگ ہونگے آج کل تو مچھر بھی عام مچھر نہیں رہے بلکہ یہ مچھر جسم پر کاٹنے کی بجائے خون کی نسیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسا زہر اتارتے ہیں کہ پھر انسان صرف تالیاں ہی بجاتا نظر آتا ہے، خوشی سے نہیں مچھروں کو دونوں ہاتھوں کی زد میں لاکر مارنے کے لئے ۔سب کے اپنے اپنے تجزیئے ہیں لیکن ہمیں تو بہرحال کچھ ہفتے اور انتظار کرنا ہے کہ کیا ہوتا ہے…!!

تازہ ترین