• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر آپ نے یہ منظر دیکھا ہو گا کہ ایک وین پر تربوز لدے ہیں اور پہرے دار کے طور پر ایک بندہ اُن تربوزوں کے اوپر بیٹھا ہے یا ایک ٹرالی پر گنّے لے جائے جا رہے ہیں اور ایک شخص اُن کی راکھی کے لئے براجمان ہے۔ وجہ بالکل سادہ ہے۔ اگر گنّے اور تربوز پر چوکیدار نہ بٹھایا جائے تو منزل مقصود تک پہنچتے پہنچتے گنّے باقی رہیں گے اور نہ تربوز، غیور قوم کے پراسرار بندے مال مفت سمجھ کر سب کچھ لے اڑیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ جاہل اور ان پڑھ لوگ ہیں جنہیں کسی بات کی کوئی تمیز نہیں، اجڈ اور غریب بھی ہیں اس لئے اِس قسم کی مفت بری یا چوری کی چھوٹ انہیں دی جا سکتی ہے۔ دے دی چھوٹ، آگے چلتے ہیں۔
یہ ایک بہترین شاپنگ مال ہے اور پاکستان میں خواتین کے کپڑوں کے سب سے بڑے برینڈ کا آئوٹ لٹ (دکان کہتے ہوئے شرم آتی ہے)۔ یہاں خواتین جب کپڑوں کے جوڑے ٹرائی کرنے کے لئے اٹھاتی ہیں تو انہیں ایک ٹوکن تھما دیا جاتا ہے تاکہ ٹرائی روم سے واپسی پر ٹوکن گن کے اُن سے کپڑے وصول کئے جائیں۔ یہ وجہ اتنی سادہ نہیں۔ امیر طبقے کی فیشن ایبل، پڑھی لکھی اور مہذب خواتین ٹرائی روم میں تین تین جوڑے ساتھ لے جاتی تھیں اور واپس آکے دو جوڑے تھما کے کہتیں کہ سوٹ پسند نہیں آیا اور ایک جوڑا اپنے بیگ میں ڈال کے اطمینان سے چلی جاتی تھیں۔ ہو سکتا ہے آپ اسے نوسر بازی کہیں یا پھر اخلاقی تربیت کا فقدان یا پھر کوئی ذہنی بیماری کہ پیسے ہونے کے باوجود جن کے اندر کا بھکاری پن نہیں مرتا۔ انہیں بیمار ذہنیت کی چھوٹ دیتے ہیں اور آگے چلتے ہیں۔
یہ پاکستان کے نامور لکھاری کا خاندان ہے، میں اس عظیم لکھاری کا نام تو دور کی بات اس کی تحریر کے بارے میں بھی اشارتاً نہیں لکھوں گا کہ وہ ایک غیور آدمی تھا جس نے تمام عمر خودداری میں بسر کی مگر اس کے پسماندگان نے اُس خوبصورت لکھاری کی لُٹیا ہی ڈبو دی۔ جب وہ بیمار ہوئے تو اُن کے ایک پرستار جو خود بھی لکھاری ہیں، عیادت کے لئے آئے، اُن کی حالت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اُس صاحب طرز لکھاری کے لئے دس لاکھ روپوں کی امداد کا بندوبست کروایا جو فوری طور پر مل گئی۔ کچھ دنوں بعد انہیں علاج کے لئے اسپتال لے جانا پڑا تو اُس لکھاری کی بیوی کا فون اسی پرستار کو آیا کہ ہم اسپتال میں ہیں اور یہاں علاج کے نام پر ہم سے پانچ ہزار روپے مانگے جا رہے ہیں، پرستار نے کہا کہ کہ بی بی جو دس لاکھ آپ کو دلوائے تھے اس میں سے پانچ ہزار ادا کردیں تو جواب میں اس بی بی نے کہا ’’کمال کرتے ہیں آپ، بندے نے روٹی نہیں کھانی ہوتی !‘‘یہ سن کر اس پرستار نے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ انہیں فلاں اسپتال میں لے جائیں، وہاں کا ایم ایس میرا دوست ہے، وہ تمام علاج مفت اور وی وی آئی پی طریقے سے یقینی بنائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا، اُس لکھاری کا علاج بہترین طریقے سے ہوا، انہیں دو وی آئی پی کمرے دئیے گئے، ایک مریض کے لئے دوسرا گھر والوں کے لئے، ایک پیسہ اُن کا خرچ نہیں ہوا، وہاں ایک ریٹائرڈ جج صاحب ان کی عیادت کو آئے اور دو لاکھ کی امداد کر گئے اور اسی طرح اور بے شمار پرستار بھی مدد کرتے رہے مگر واضح رہے کہ اُس خود دار لکھاری کو کوئی ہوش تھا اور نہ انہیں اس بات کا علم کہ اُن کے گھر والے اُن کے نام کو کیش کروا رہے ہیں۔ بہر کیف اُن کا انتقال ہو گیا مگر آج تک اُن کے گھر والے اُن کے نام کو استعمال کرکے ہر اُس شخص کو فون کرکے امداد کی درخواست کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں شبہ ہوتا ہے کہ وہ اس لکھاری کا پرستار ہے۔ یہی نہیں بلکہ مرحوم کے بیٹے نے اُن کی وفات کے بعد بیان دیا کہ والد صاحب کسمپرسی کی حالت میں فوت ہوئے اور کوئی امداد نہیں ملی وغیرہ وغیرہ۔ اسی قسم کا قصہ ایک مرحوم شاعر کا بھی ہے، وہ بھی ایک غیور اور خود دار آدمی تھی، ان کا نام بھی لکھنے کی ضرورت نہیں، پہلے ان کے لواحقین کو دس لاکھ کی امداد دلوائی گئی اور ساتھ ہی پنجاب حکومت نے پچیس ہزار ماہانہ مشاہرہ مقرر کر دیا جسے بعد میں پسماندگان کی درخواست پر دو سال کے ایڈوانس کے طور پر ادا کر دیا گیا، اُ ن کے فوت ہونے کے بعد اُن کے گھر والے ہر اُس شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانے گئے جو اُن کا مداح تھا اور مدد کی درخواست کی، بعد ازاں اُن کے اپنے درمیان اس ضمن میں ملنی والی امداد کی تقسیم پر جھگڑے بھی شروع ہو گئے۔ ایک اداکار کی کہانی بھی یہی ہے، موصوف کو حکومتی فنڈ سے پانچ لاکھ روپے امداد دلوائی گئی، تین ماہ بعد دوبارہ آ دھمکے، کہنے لگے مزید امداد چاہئے، پچھلی امداد کی یاد دہانی کروائی گئی تو بولے ’’میاں اس بات کو تو تین ماہ ہو گئے!‘‘ آپ ابھی زندہ ہیں اور اکثر فائیو اسٹار ہوٹلز میں پائے جاتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ بھکاری کے ہاتھ میں کشکول ہو، اس نے پھٹا پرانا چوغہ پہن رکھا ہو، وہ لنگڑا کر چل رہا ہو یا پھر اللہ کے نام پر صدا لگا رہا ہو۔۔۔۔ ہم سب ہی بھکاری ہیں، پڑھے لکھے، جاہل، امیر غریب، مہذب یا اجڈ، بلاتفریق۔ تباہ شدہ آئل ٹینکر سے تیل نکالنے والے کوئی بھک منگے تھے اور نہ ہی ایسے غریب جن کے گھر چولہا نہیں جلتا تھا۔ اُن بیچاروں کو کیوں لعن طعن کریں کہ اُن کی لاشیں دیکھ کر ہول اٹھتا ہے، اِس قوم کے بھکاری پن پر ماتم کریں جو ایک ایسے ٹرک سے مشروب کی بوتلیں اٹھا لیتی ہے جس کا ڈرائیور حادثے کے بعد غائب ہو جاتا ہے، جی ہاں، ایک ویڈیو کلپ میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک بے یار و مدد گار ٹرک سے لوگ بوتلیں اٹھا کے خوشی خوشی لے جا رہے ہیں، بچے بھی شامل ہیں جوان بھی، باریش بھی اور کلین شیو بھی، موٹر سائیکل سوار بھی پیدل بھی، کچھ لوگوں نے زیادہ بوتلوں کے لالچ میں اپنے بچوں اور پردہ دار خواتین کو بھی بوتلوں کے بنڈل پکڑا رکھے ہیں۔ بھکاری پن اور مفت بری کی اس سے گھٹیا مثال اور کیا ہو گی۔
کیا تربیت کا معاملہ ہے، کیا تعلیم کا قصور ہے، کیا حکومت کی کوتاہی ہے یا پھر مذہبی تبلیغ میں کوئی کمی رہ گئی ہے؟ جن لکھاریوں کی مثال بیان کی انہیں تو گھر سے یہ تربیت نہیں ملی ہو گی کہ در در جا کر پیسے مانگو۔ جن خواتین کی مثال دی اُن کے پاس تو تعلیم بھی ہو گی۔ حکومت کی کوتاہی کہنا تو ہر معاملے میں سب سے آسان ہے مگر کیا دنیا کی کوئی بھی حکومت ہر شخص پر ایک پہرے دار مقرر کر سکتی ہے جو اُس کی حرکتوں پر نظر رکھے۔ اور مذہب کی تعلیمات تو اس ضمن میں بالکل واضح ہیں، سخت ترین الفاظ میں اس قسم کی حرکتوں کی مذمت کی گئی ہے۔ تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ وہ صدیوں کی بھوک ہے جو مٹنے میں ہی نہیں آتی۔ شادی بیاہ کے موقع پر جس طرح ہم کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اپنی پلیٹ میں بوٹیوں کے پہاڑ بناتے ہیں اور یوں کھاتے ہیں جیسے زندگی کا آخری کھانا کھا رہے ہوں، اسے دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ یہ صدیوں کی بھوک ہے۔ معاملہ یہیں تک رہے تو شاید بھوک اور بھکاری پن کبھی ختم بھی ہو جائے مگر اب تو قومی معاملات میں بھی ہمارا یہی حال ہے۔ کسی بھی ملک سے خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہو تو سب سے پہلا سوال ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ وہ ملک ہمیں کیا دے سکتا ہے؟ نجانے اس بھکاری پن سے ہم کب چھٹکارا پائیں گے۔

تازہ ترین