• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یقین نہیں آرہا کہ جناب وزیراعظم، ملکی خارجی امور کی طرف عملاً متوجہ ہوئے ہیں۔ لیکن ہوئے تو ہیں، اپنے اقتدار کی تیسری باری کے آخری سال میں واقعی وہ کچھ اس جانب آئے ہیں تو تجسس گہرا ہے کہ اس کا محرک کیا ہے، کون انہیں اس طرف لے آیا؟ ان کا خارجی امور کی جانب 4سالہ رویہ تو واضح طور پر یہ یقین پختہ کر چکا ہے کہ وہ ’’ازخود تواس جانب نہیں آئے‘‘۔ اپوزیشن، میڈیا اور متعلقہ ماہرین کے وزیر خارجہ کی عدم تعیناتی پر ان کے اڑ جانے اور اس اہم ترین شعبے میں مسلسل عدم دلچسپی کے واضح مظاہرے سے تو یہ کھلا پیغام ملتا رہا کہ وہ ’’خاموش احتجاج‘‘ کی یہ پوزیشن اس لئے لئے ہوئے ہیں کہ وہ ’’سیکورٹی‘‘ کے حوالے سے بھی متعلقہ اداروں کو شیئر کرانے کے لئے کسی طور تیار نہیں، حالانکہ ریاستی سلامتی کے ادارے (جن پر سرحدوں کے علاوہ اندرونی سلامتی کی نئی طویل ترین اور ہنوز جاری ذمہ داری بھی آن پڑی) اپنی روایتی کھلی یا ضرورت سے زیادہ مداخلت کا رویہ ترک کر کے ازخود اس امر کے کب سے قائل ہو چکے کہ ان کے مطلوب شیئر کے ساتھ سول حکومت کو ہی خارجی امور کی باگ ڈور (حقیقتاً) خود سنبھالنی چاہئے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ جیسا جمہوری ملک، پینٹاگون اور غیر سرکاری تھنک ٹینکس کے اشتراک و تعاون کے بغیر خارجہ پالیسی تشکیل دے سکتا ہے نہ انتظامیہ فیصلے لے سکتی اور اقدامات کرسکتی ہے۔ ادھر ہمارے وزیراعظم صاحب جاری باری میں خارجی امور میں ’’کامل آزادی‘‘ کے لئے خاموشی سے احتجاجاً بضد رہے، یہ نہ سمجھ سکے کہ پاکستان جیسے ملک میں آزادی اور بلاشرکت اختیار کوئی بڑا وژنری (جس کے ویژن کا زمانہ قائل ہو) یا کوئی مکمل شفاف اور کسی شک سےبالا مینڈیٹ، پھر عوام کا حقیقی خادم وزیراعظم اتنی آزادی اور اختیار حاصل کرلے تو کر لے، (معذرت کے ساتھ) جناب نوازشریف قطعی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق ’’کھیلنے‘‘ کے لئے چاند مانگیں گے۔ اس کے لئے تو ستاروں پر کمند ڈالنے اور چاند پر پہنچنے کی سی صلاحیت درکار ہے۔ ہماری جو قیادت اس کی حقیقت کو نہیں جانتی اسے اپنے ملکی خارجی امور کے قابل فہم اہم اور منفرد حقائق سے شناسائی نہیں۔ نہیں ہے تو جن جن کو ہے، جہاں جہاں ہے، وہاں وہاں کا شیئر، مشاورت، رابطہ اور تعاون حاصل کرنا ہی راہ راست ہے۔ پاکستان مدتوں سے اس گمراہی میں مبتلا رہا ہے کہ فقط سول (منتخب) حکومت اور دفاع وطن کے ذمہ دار ہی باہم یا مجبوراً دب کر یا دبا کر، مطلوب باہمی اعتماد سے محروم رہتے انتہائی حساس خارجی امور نپٹانے کے ذمہ دارہیں اور دیگر متعلقین کے لئے یہ ممنوعہ علاقہ ہے حالانکہ پاکستان کی سفارتی مہارت اور وزارت میں پوٹینشل تو موجود رہا۔
یوں تو ہر مستحکم اور کامیاب یا کم از کم ریاستی نظام میں توازن کی حامل ریاست میں ’’امور خارجہ‘‘ کم سے کم اختلافی شعبہ ہوتا ہے لیکن کئی اعتبار سے پاکستان کی یہ قومی ضرورت شاید دنیا میں کسی بھی ملک کے مقابل کہیں زیادہ ہو۔ ہم اس ضرورت کو کتنا سمجھیں اور سمجھ کر پورا کرسکے؟ صرف اتنا ہی نہیں کہ کافی حد تک نہیں کرینگے بلکہ اس کے الٹ جو کچھ ہوا دو ہی شیئر ہولڈر اس کے ذمہ دار ہیں۔ جو ہوا اس میں بڑے بڑے ڈایزاسٹر کی فہرست طویل ہے۔ کہیں ذمے دار نااہل، کرپٹ اور غیر مستحکم سول حکومت ہے تو کہیں عقل کل کے زعم میں مبتلا اسٹیبلشمنٹ یا غیر آئینی آمرانہ حکومتیں۔ یہ ہونا ہی تھا کہ خارجی امور کے حوالے سے اپنی بے پناہ انفرادیت کی حامل پاکستان جیسی مملکت میں ایک اوسط ریاست کے مقابل بہت کچھ اور درکار ہوا، سب سے بڑھ کر علمی بنیاد پر مبنی خارجہ پالیسی اور اس کی روشنی میں نازک فیصلوں پر پوزیشن لینے کا ایک منفرد اور متفقہ ارتقاء پذیر میکزنزم درکار ہے، جس کی پہلی ضرورت شعبے کے اسٹیک ہولڈر کی نشاندہی ہے جواب بڑھ چکے ہیں یہ مان لیا جائے کہ کہیں بھی اور پاکستان میں تو بالکل (اے کم کلے بندے دا نئی) یہ کام فرد واحد نہیں۔خصوصاً جبکہ سیاسی منظر پر خارجی امور میں کوئی ذوالفقار علی بھٹو ہے نہ آغاشاہی، نہ ہی بے نظیر اور صاحبزادہ یعقوب جیسے پوٹینشل کا۔ موجودہ صورتحال میں جناب خورشید قصوری فٹ تھے لیکن وہ موجودہ حکومت کے TORپر پورے نہ اترتے ہیں ایک تو پچھلے نواز دور (1997-99) میں ہی نہیں، اس کے بعد مشرف دور میں بھی وزیر خارجہ رہے۔ پھر اب پی ٹی آئی میں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ وزیر ہی رہ سکتے ہیں ’’ جی حضوری‘‘ کے مطلوب لیول پر آنا ان کے لئے ممکن نہیں۔ جناب ایس ایم ظفر اپنے تجربے، وژن اور مجموعی پوٹینشل کے اعتبار سے وزارت خارجہ سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کی پیرانہ سالی پھرق لیگی ہونا اپنی جگہ ایک اور’’جرم‘‘ حالانکہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ انہوں نے بہرحال لیگی میں رہنا ہوتا ہے، اگر خارجی امور کو بھی ن لیگی دائرے میں ہی رکھنا ٹھہر گیا تھا تو ،قابل اعتبار دو بزرگان میں سے کسی ایک کو مکمل وزیر خارجہ بنادیا جاتا لیکن فاطمی صاحب کو وزارت میں غیرواضح پوزیشن کے ساتھ ساتھ ڈان والی لیکس کے چکر میں پھنسا کر بھینٹ چڑھادیا گیا حالانکہ انہیں نہال ہاشمی کی جگہ بہت پہلے ہی سینیٹر بنا کر وزیر خارجہ (یا وزیر مملکت ہی)بنادیا جاتا، لیکن جو ہوا وہ ن لیگی بیڈ گورننس کا مثالی نمونہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی کڑوا ہوکہ پاکستانی وزارت خارجہ کی چار سالہ یتیمی اور اس میں سازگار صورتحال میں حاصل ہوتے بڑے سفارتی اہداف کی مسنگ کے ذمہ دار مکمل شعوری طور پر فقط اپنی ضد کے حوالے سے جناب وزیر اعظم ہیں۔ یہ ان کے تیسرے دور کی بیڈگورننس کا سب سے بڑا اور مسلسل نمایاں رہنے والا ثبوت ہے جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے انہوںنے اپنی ا نا اور ضد کو ملکی مفاد پر غالب رکھا۔ دوسری جانب وزارت خارجہ کو’’ یتیم‘‘ہی رکھنے کی لی گئی پوزیشن پر جتنے سوال اٹھنے چاہئے تھے، داخلی سیاست کے ان گنت اور ایک سے بڑھ کر ایک جھمیلے میں نہ اٹھے جس سے میڈیا ا ور اپوزیشن کی محدود سکت کی بھی نشاندہی ہوئی۔ ایسا نہیں کہ اس بیڈ گورننس پر سوال نہ اٹھے لیکن فری کوئینسی بہت کم رہی اور جب مطلوب تھی(نشاندہی) ان (میڈیا اور اپوزیشن) کی طرف سے بھی مسنگ ہوئی۔ خصوصاً ہم ہاتھ لگے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن سے حاصل ٹھوس ثبوتوں کے باوجود دنیا کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے کہ بھارت کس طرح دوطرفہ تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ہمسایوں کی سرزمین استعمال کرکے کتنی ہولناک دہشت گردی پاکستان کو درآمد کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جتنی عریاں بھارتی ریاستی دہشت گردی گزشتہ ایک سال سے جاری ہے، اسے دنیا میں عیاں کرنے میں ہمارے سفارتی مشن کا ڈیزاسٹر بھی عیاں ہے کہ بھارت بنیادی انسانی حقوق کو کتنی دیدہ دلیری سے پامال کررہا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ جناب وزیر اعظم نے یتیم وزارت کے سر پر جو پہلی مرتبہ ہاتھ رکھا یہ کیونکر ممکن ہوا؟ اور یہ دیر آید کتنا درست ہے؟ اللہ ن لیگی حکومت کو اب اس حوالے سے استقامت دے(آمین) بہت کچھ مس ہونے کے بعداب زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے پیدا ہونے والے ان سوالوں کے جوابات آئندہ ’’آئین نو‘‘ میں۔

تازہ ترین