• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں پاکستان کےبہت سے نام ہیں ۔قوس ِ قزح کے رنگوں پر لکھے ہوئے ان ناموں میں پاکستان کاایک اہم ترین نام ’’صادقین ‘‘ بھی ہے ۔گزشتہ دنوں صادقین کی 87 ویں سالگرہ پر سرچ انجن گوگل نے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈوڈل بنا یا تومیری روح میں ایک عجیب سی فرحت کا احساس ہوا۔ویسے تو میری صادقین سےروزانہ ملاقات ہوتی ہے۔ یہاں برطانیہ میں صادقین کی ایک تصویر میرے لیونگ روم میںموجود ہے اور میں جب پاکستان جاتا ہوں تو میرا قیام شعیب بن عزیز کے گھر میں ہوتا ہے جہاں صادقین کی کئی پینٹنگ ہیں ۔صادقین کی زندگی میں میری اُن سے ایک سرسری سی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ 1984کی بات ہے ۔جب انہیں قائداعظم ایوار ڈدیا گیا تھا میرے ایک آرٹسٹ دوست فرحان عزیز نے مجھے ان سے ملوایا تھا فرحان کا کہنا تھا کہ میں نے صادقین سے زیادہ انہماک سے کام کرتے ہوئے کبھی کسی کو نہیں دیکھا جب وہ کام کررہے ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں اتنی روانی ہوتی ہے کہ دیکھنے والی آنکھ اکثراوقات اس رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔ کچھ لوگوں کا خیال کہ صادقین کو صادقین بنانے میں ان کی ریاضت کا بہت عمل دخل ہے ان کی اپنے فن کے ساتھ اتنی کمٹمنٹ تھی کہ وہ اس پر دنیا کی ہر چیز قربان کر سکتے تھے۔ ہفتوں کراچی کے قریب ایک ویران جزیرہ پر جا کر کام کرتے رہتے تھے جہاں تنہائی کے پھول تھے یا تاحد نظر تھور (CACTUS)کے پودے۔تھور کا پودہ صادقین کی مصوری میں ایک اہم ترین استعارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ صادقین خود تھور کے پودے کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ ناموافق موسموں میں بھی شاہانہ انداز سے موجود رہتا ہے یہ ناسازگار حالات سے نبردآزما انسانی زندگی کےلئے فتح کی علامت ہے۔ایک زمانے میں اسے میں اپنی ذات پر منطبق کیا کرتا تھا پھراسے پورے سماج پر منطبق کرنے لگا۔ یعنی صادقین نے اسے پاکستانی قوم کا استعارہ بنا کر پیش کیا ۔
اسمیں کوئی شک نہیں کہ صادقین نے تھور کے پودے کو انسانی شکل عطا کردی۔ تھورکا اثر ان کے نقش و نگار میں بہت نمایاں ہے صادقین کی پینٹنگ پر غور کیاجائے تو انسانی اعضاکے مشاہدے سے تھور کے پودے کا بصری احساس ابھرتا ہے جس سے دو واضح علامتیں سامنے آتی ہیں ایک تو انسان کی نامساعد حالات کے خلاف مسلسل جنگ اور پھر فتح ۔۔اور دوسری علامت اخلاقی اور تہذیبی اقدار کا زوال ہے جوصادقین تھور کی خارداری اور بدصورتی کو بڑھا کر سامنے لاتے ہیں اس کا اندازہ صادقین کی اس تصویر سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے جس میں ایک سربریدہ آدمی زمین پر لیٹا ہوا ہے اس کے ایک ہاتھ میں اپنا کٹا ہوا سر ہے جس پر پرندے نے گھونسلا بنا رکھا ہے اور انڈے دئیے ہوئے ہیں اور اس کے بازو میں مکڑیوں کے جالے بنے ہوئے ہیں ۔ میں اگرصادقین ہوتا تو شاید کٹے ہوئے سر میں پرندوں کا گھونسلا بنانے کی بجائے مکڑیوں کا جالا بنادیتا۔اس وقت ہم پاکستانی مکڑیوں کے اِسی جالے میں پھنسے ہوئے ہیں ۔مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ تھور کے پودے کی طرح ہم پاکستانی مشکل ترین وقت میں بھی زندہ رہنے کا ہنر جانتے ہیں ۔چاہے امریکی تعلق کی گرم جوشی کاجولائی ہو یا سر د رویوں کے دسمبر ہوں پاکستان آگے بڑھتا رہتا ہے۔ صادقین آغاز میں کہیں کہیں پکاسو سے متاثر نظر آئےمگر انہوں نے خود کو محدود نہیں ہونے دیا ۔وہ وہاں بھی اپنے گہرے حاشیوں اوراپنی بے انت بصری فرہنگ سے ایک توانائی سے بھراہوا منفرد اسلوب سامنے لانے میں پوری طرح کامیاب ہیں ان کی مصوری میں باریک اور تیکھے نقوش ان کی تمثیلی خطاطی اوران کی فکر و احساس سے بھری ہوئی امیجری ان کی انفرادیت کو کہیں کم نہیں ہونے دیتی۔ خطاطی انہیں ورثے میں ملی تھی ان کے والد کہنہ مشق خطاط تھے اور انہوں نےاس روایت سے بغاوت کی، خطاطی کے تمام مروجہ اور غیر مروجہ مکاتب ِ خطاطی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایک مجذوبانہ انداز اختیار کیا اور ایک تمثیلی خطاطی بنانے میں کامیاب ہوئے جسے اب لوگ خط ِ صادقینی کہنے لگے ہیں کچھ خطاطی کے تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ سورۃ الرحمن کا اسلوب خط ِ بہاری سے نکلا ہوا ہے مگرمیرے خیال تو سورۃالرحمن اور خطِ بہاری میں کوئی مماثلت صرف انہیں دکھائی دیتی ہے خود صادقین کو اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے خطاطی کی اپنی طرز بنالی ہے ۔اہلِ فن صادقین کی مصوری کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں پہلا اُقلیدسی نقاشی کی تحریک(CUBISM)کا ابتدائی دور دوسراقنوطی معکوس ، واژگوں تصویروںکا دور اور تیسراقرآنی خطاطی کا دور۔۔ اور صادقین کا فن ان تینوں ادوار کے ملاپ سے اپنی عظمت کی تصویر بناتا ہے صادقین کو 1962میں مصوری کی دنیانے ایک بڑے مصور کی حیثیت سے پہچان لیاتھاجب پہلی بار صادقین نے اپنی ایک تصویر پیرس میں آرٹ کے مشہور مرکز”بیانال“(BIENNIAL)میں بھیجی اس تصویر کانام تھا”وہی عشائے اخیر۔سہ ماتمی رنگوں میں مستغرق“(THE LAST SUPPER)یہ تصویر تجریدی آرٹ کا ایک شاہکار تھی یعنی تجسیم سے منزہ فن پارہ تھا۔اور وہاں صادقین کو خصوصی انعام دیا گیااس کے اس شاہکار پر بڑے بڑے ناقدین ِفن نے تبصرے لکھے ۔ لی ہارو(LE HARVE)جیسے مشہورترین آرٹ میوزیم میں صادقین کو جگہ دی گئی ان کی چودہ تصویروں کو وہاں آویزاں کیا گیااور پھر صادقین ان لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن گیا جولیونارڈوڈاونچی اور پکاسووغیرہ کی تصویریں جمع کرتے تھے اور جب انہوں نے صادقین کی تصویریں خریدنی شروع کیں تودنیا صادقین کو اور نگاہ سے دیکھنے لگی۔اس وقت بھی سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی وجہ سے دنیا پاکستان کو کسی اور نظر سے دیکھ رہی ہے۔پاکستانی قوم کا ایسا امیج کم کم ہی دنیا کے سامنے آتا ہے۔
صادقین 1930میں پیدا ہوئے تھے اور1987میں دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے 57سال کی قلیل عمر میں اپنا شمار دنیا کے بڑے آرٹسٹوں میں کرانے والی اس شخصیت کا کام پاکستان کےلئے ایک قومی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے مگران کا میورل سازی کا کام پاکستان میں شکست وریخت سے دوچار ہے ،لاہور کے عجائب گھرکی چھتوں سے لے کرمنگلا کے میورل تک۔۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے اس کی حفاظت کےلئے وہی مناسب انتظامات ضروری ہیں جو یہاں مغرب کے عجائب گھروں میں رائج ہیں۔

 

تازہ ترین