• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمران سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ان کے حامی حلقے پاناما کیس کی مزید تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ انہوں نے میڈیا میں یہ واویلا مچایا ہوا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے نتیجے میں جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی اور جمہوری ادارے ختم ہو جائیں گے ۔ اگرچہ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ رپورٹ وزیر اعظم کے خلاف ہو گی اور اس کے ذریعے مضبوط اور مقبول سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے اسٹیبلشمنٹ کے پرانے ایجنڈے کی تکمیل ہو گی۔ پہلے تو صرف مسلم لیگ (ن) کے رہنما اس طرح کی باتیں کر رہے تھے ۔ اب تو وزیر اعظم خود بھی یہی باتیں کر رہے ہیں ۔ عید سے قبل لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ احتساب نہیں ، مذاق ہے ۔ گواہی کے لئے ہمارے بدترین مخالفین کو بلایا جاتا ہے ۔ مریم نواز کو JITمیں بلانے پر ایک ہنگامہ برپا ہے لیکن کیا اس سے پہلے بے نظیر بھٹو کو انکے بچوں کے ساتھ عدالتوں میں نہیں بلایا گیا؟۔ قوم ایک طرف دیکھ رہی ہے اور جے آئی ٹی دوسری طرف جبکہ جے آئی ٹی کے ارکان میرے سوالوں کا جواب نہیں دے سکے ۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ سازشی سیاست دان کہتے تھے کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے ۔ ان سے وضاحت مانگی جائے کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں سے جو خطاب کیا ، اس میں انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور جے آئی ٹی پر تنقید کی ۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بیانات سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ’’جوں کی توں ‘ والی صورت حال زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی اور اس کے نزدیک یہ جمہوریت ، جمہوری اداروں اور سیاست دانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔وہ یہ بھی تاثر دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانے گی۔ کچھ دیگر حلقے ایسے ہیں ، جو علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پاکستان کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد پہلی مرتبہ امریکی کیمپ سے نکل کر چین اور روس کے کیمپ میں جا رہا ہے ۔ امریکہ پاکستان کو اس کی سزا دے سکتا ہے ۔ اس مرحلے میں ملک میں سیاسی بحران سے داخلی عدم استحکام پیدا ہو گا اور پاکستان میں زبردست انتشار اور بدامنی کا ایک خوف ناک اور نیا عہد شروع ہو سکتا ہے ۔
عام لوگوں میں اس طرح کی مایوسی نہیں دیکھی گئی ۔ پاکستان کے لوگ موجودہ صورت حال سے ان اسباب کی بنیاد پر مایوس نہیں ہیں ، جن اسباب کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامی حلقے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ عوام کرپشن اور بیڈ گورننس سے مایوس ہیں لیکن احتساب کے عمل سے ان میںایک امید پیدا ہوئی ہے ۔ عید کے موقع پر ہمارے خاندان کے سب افراد ایک جگہ جمع تھے۔ یہ سب افراد غیر سیاسی ہیں لیکن گفتگو کے دوران خواتین اور نوجوانوں کی یہ رائے تھی کہ کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ پاناما کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے وہ تمام سیاستدان جو حکومت میں رہے ان سے بیزار ہیں ۔ اس سے بااثر لوگوں کے احتساب کی ایک مثال قائم ہوئی ہے ۔ ہم اپنے آپ کو دانشور سمجھنے والے لوگ یہ تصور کر رہے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کا عمل شروع ہوا تو ملک میں سیاسی قیادت کا خلاء پیدا ہو جائے گا لیکن خلا کبھی نہیں ہوتا حالات خود لیڈر پیدا کرتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے جو سیاسی تحریک چلائی گئی تھی ، آج اسے غیر سیاسی قوتوں کی تحریک قرار دیا جاتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے نے پاکستان کی عدلیہ کو آج تک تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت میں لوگوں کو ریلیف دیا ۔ ان کی معاشی حالت تبدیل کی ۔ انہوں نے لوگوں کو اعتماد دیا اور ان میں امید پیدا کی ۔ بھٹو صاحب کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں پاکستان نے دنیا میں بلند مقام حاصل کیا ۔ بھٹو کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے جو سازش کی ، اس کے خلاف ملک کی سیاسی ، جمہوری اور قوم پرست قوتوں کا احتجاج جائز ہے لیکن ہر جمہوری اور سویلین حکومت کے اپنے پید اکردہ بحران کو اسی طرح کی سازش قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بھی قبل ازیں ایسی ہی سازش کا شکار ہوئے لیکن اس وقت جو صورت حال ہے ، وہ پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سیاست دانوں کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ کرپشن کے جو مقدمات ہیں ، ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔آج سیاست دانوں کے اثاثوں اور دولت کے بارے میں عام لوگوں کی جو رائے اس وقت ہے ، وہ پہلے کبھی نہیں تھی ۔ نواز شریف حکومت بھٹو سے ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی۔بھٹو کا مقدمہ پاکستان کے مستقبل کا مقدمہ تھا ان پرکرپشن کا مقدمہ ہے۔
جمہوریت اس بات کا نام نہیں ہے کہ کوئی جمہوری حکومت لازمی طور پر اپنی مدت پوری کرے ۔ دنیا کی قدیم جمہوریتوں میں بھی جمہوری حکومتوں نےاپنی آئینی مدت پوری نہیں کی ۔ اگر مدت پوری کرتی ہیں تو ان ہاؤس تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں لیکن اس طرح کی صورت حال کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار نہیں دیا جا تا ۔ جمہوریت اس بات کا نام ہے کہ جمہور کو فائدہ ہو ۔ لوگ بہتر زندگی گزاریں اور بقول ذوالفقار علی بھٹو ’’عوام کے منتخب نمائندے انتہائی دیانت داری کے ساتھ اور شفاف انداز میں معاملات چلائیں ۔ ‘‘ جمہوریت کے نام پر کرپشن اور بیڈ گورننس کو رائج نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر کرپشن اور بیڈ گورننس کے نظام سے جمہوریت کی قیمت پر نجات حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ عوام کیلئے وقتی نقصان ہے ۔ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر تیسری دنیا کے ممالک میںآمروں نے عوامی حمایت حاصل کی اور جمہوری حکومتوں کی مقبولیت بھی کرپشن اور بیڈ گورننس کی وجہ سے ختم ہوئی ۔ یہ اور بات ہے کہ جمہوریت کی بحالی میں پھر لوگوں نے ان آمروں کے خلاف لڑائی کی اور بے پناہ قربانیاں دیں ، جہاں جمہوریت طویل اور کٹھن جدوجہد اور بے مثل قربانیوں سے حاصل ہوئی ہو وہاں جمہوری حکومتوں میں کرپشن اور بیڈ گورننس ناقابل برداشت ہوتی ہے ، جس طرح آمریت کئی نسلوں کیلئے سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، معاشی اور اخلاقی مسائل پیدا کر دیتی ہے ، اسی طرح جمہوری حکومتوں میں کرپشن اور بیڈ گورننس بھی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے ۔اداروں میں غلط لوگ آتے ہیں اور یہ سلسلہ نہ صرف نسلوں تک چلتا ہے اور ترقی پذیر ممالک میں خصوصاً جمہوری حکومتوں کی ناکامی پر منتج ہوتا ہے ۔
یہ کہنا کہ صرف ایک سیاست دان یا ایک گروہ کا احتساب کیوں ہو رہا ہے ۔ دراصل معاملات کو بڑے کینوس پر پھیلا کر دھندلا دینے کے مترادف ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے لیکن یہ تب ممکن ہو گا ، جب کسی بھی فرد یا گروہ کے احتساب کے عمل میں رکاوٹ پیدا نہ کی جائے یا اس عمل کو متنازع نہ بنایا جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر ہمیشہ انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن موجودہ صورت حال کئی اسباب کی بناء پر ماضی سے مختلف ہے ۔ اس کیلئے صرف ایک مثال کافی ہے ۔ ماضی میں احتساب کا نظام تھا۔ اس میں میاں محمد نواز شریف کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا ۔ پیپلز پارٹی کی دو حکومتوں نے میاں محمد نواز شریف کے خلاف کرپشن کے کئی ریفرنسز بنائے لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی لیکن میاں محمد نواز شریف کی دو حکومتوں میں پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو اور دیگر قائدین کے خلاف جو مقدمات یا ریفرنسز دائر کئے گئے ، انہوں نے پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کو سیاسی بقا کے مسئلے سے دوچار کر دیا ۔ یہاں تک کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک ریفرنس میں نہ صرف نااہل قرار دیا گیا بلکہ ایک طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی کو بطور سیاسی جماعت کالعدم قرار دے دیا گیا اور ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز قائم کی گئی ۔ میاں محمد نواز شریف بغاوت کے مقدمے میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود آج تیسری مرتبہ وزیراعظم ہیں ۔ اگر ماضی والا نظام ہوتا تو پاناما کیس عدالت تک ہی نہیں پہنچتا ۔ حالات تبدیل ہو گئے ہیں ۔ جو لوگ روشن مستقبل کی پیش گوئی کر رہے ہیں ۔ انہیں پتہ ہے کہ نہ جمہوریت ڈی ریل ہو گی اور نہ ہی جمہوری ادارے ختم ہوں گے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کرپشن اور بیڈ گورننس کے جس نظام سے مایوس ہیں ، ان میں اس نظام سے نجات پانے کی امید پیدا ہو چکی ہے ۔ لوگ اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ امید ایسی ہے کہ بقول علامہ اقبال
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت کی رات سیماب پا ہو جائے گی

تازہ ترین