• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا لگتا ہے کہ دُنیا ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ دُنیا کو آگ کی بھٹی میں جھونکنے والا مواد بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ جنگ کی آگ کو بھڑکا دے، ایسا توہے ، کیونکہ دُنیا کے کئی ممالک میں ایسے حکمراں آگئے ہیں جن کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے، اِن ممالک میں امریکہ اور بھارت شامل ہیں، امریکہ دُنیا کے بہت سی جگہوں پر جنگی جھڑپوں میں پہلے ہی مصروف ہے، اُس کی موجودہ قیادت کس حد تک جنگ کو محدود رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس کا سربراہ ناتجربہ کار ہے، اُسکو کوئی طے شدہ اور صورتِ حال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے یا کسی خراب صورتِ حال سے نمٹنے کا طریقہ نہیں آتا، اس کے ساتھ قابل لوگوں کی ٹیم موجود نہیں ہے اور نہ ہی اپنی منزل کا پتہ ہے، اسی طرح بھارت کے وزیراعظم کے پاس آگ بھڑکانے والا مواد موجود ہے اور اس آگ کو ہوا دینے کی خواہش بھی موجود ہے،بہ یک وقت دو ممالک سے نبردآزما ہونے کی خواہش اس کے دل میں ہے۔ چائے بیچ کر وزیراعظم کے عہدے پر پہنچنا قابل تعریف بات ہے مگر ذہنی سطح کو بھی حکمرانی کی سطح پرلانا ضروری ہے، اس کو جنگ کی تباہ کاریوں کا اندازہ ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے، وہ پاکستان اور چین کو سرنگوں کرنا چاہتا ہے، پاکستان کی مشرقی سرحد بھارت سے ملتی ہے اُس کو ہر وقت گرم رکھا جارہا ہے، دوسری طرف افغانستان میں فاٹا کے ساتھ ملی سرحدوں پر افغان حکومت کی مرضی سے اپنی مسلح افواج لےآیا ہے، اس کے علاوہ چین کے ساتھ چھیڑچھاڑ کر رہا ہے۔ چین نے اس کو 1962ء کی شکست یاد دلائی ہے مگر بھارت نے چین سے چھیڑچھاڑ امریکہ کو دکھانے کیلئے کی اور اس وقت کی جب بھارت کے وزیراعظم 26 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مل رہے تھے، اگرچہ یہ ملاقات صرف 20 منٹ کی تھی، اس ملاقات میں نریندر مودی نے امریکی صدر کو گلے لگانے کی کوشش کی، اس رسم سے امریکی صدر ناآشنا تھے، اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی صدر نے بھارت کو کوئی خاص اہمیت دی ہو کیونکہ اس طرح کی ملاقات ترکی کے صدر، ویت نام اور جاپان کے وزرائے اعظم سے بھی کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے وقت ضائع کئے بغیر بھارتی وزیراعظم کی توجہ 30.8 بلین ڈالر کے تجارتی خسارہ کی طرف دلائی کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی حجم بھارت کے حق میں ہے، بھارتی وزیراعظم نے امریکہ سے 40 بلین ڈالرکے 100 بوئنگ طیارے خریدنے اور ایل این جی معاہدے کی پیشکش کی جو امریکی ذرائع کے مطابق امریکی صدر کو مطمئن نہ کرسکی، کیونکہ 40 بلین ڈالر طویل عرصے میں حاصل ہوں گے۔ طے یہ ہوا کہ وہ امریکہ کے دو بڑوں کی ٹیم جن میں وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس مل کر معاملہ حل کریں کہ تجارتی تعلقات انصاف اور برابری کی بنیاد پر کیسے بنائے جائیں۔ امریکہ بھارتی مارکیٹ تک رسائی چاہتا ہے۔ امریکی اشیا پر شرح محصول کم کرانا اور ادویات کے سلسلے میں امریکہ کا حق تسلیم کرانے کی خواہش رکھتا ہے، یہ کافی مشکل کام ہیں جو مودی صاحب کو بھارت آ کر امریکہ کی خوشنودی کے چارٹ میں رنگ بھر کر کرنے ہیں۔ مودی نے اس سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا اور داماد جرید کشنر کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ طریقہ چین نے کامیابی سے استعمال کیا تھا اور عین ممکن ہے کہ بھارت فوری نہیں تو سال دو سال میں ٹرمپ کو رام کرلیں اور ٹرمپ ذاتی مفاد کیلئے امریکی مفاد کو قربان کردیں گے، تاجر حکمران ایسا ہی کرتے ہیں، ایوانکا نے ٹرمپ کو شام میں میزائل حملہ کرنے کیلئے راضی کیا، ظاہر ہے صیہونی اُن پر کام کررہے ہوں گے، ایوانکا خارجہ پالیسی امور میں کافی اثرانداز ہوتی ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مودی اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات میں وہ موڑ نہیں آیا کہ وہ انہیں اُن کے پہلے نام ’’ڈونلڈ‘‘ کہہ کر پکار سکیں۔ اگرچہ انہوں نے کافی کوشش کی ہے۔ ٹرمپ ، دہشت گردی جس کو خود امریکہ نے پروان چڑھایا ہے کو ختم کرنے میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں جس کے یہ معنی ہوئے کہ سی آئی اے نے ابھی تک اُن کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ریاستی راز اُن تک پہنچائیں جبکہ مودی نے محفوظ پناہ گاہوں، دہشت گردوں کی پناہ گاہوںکو ختم کرنے پر زور دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو امریکہ کے حملوں کے دائرہ کار میں لانا چاہتا ہے۔ یہاں ابہام پیدا ہوا کیونکہ امریکہ کا وائٹ ہائوس پاکستان کو دہشت گردی کا شکار سمجھتا ہے اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس طرح مودی امریکہ کو پاکستان کے مکمل خلاف کرنے میں ناکام رہے، البتہ انہوں نے کشمیری مجاہد صلاح الدین پر پابندی لگا دی جو پاکستان نے مسترد کردی اور اقوام متحدہ میں معاملہ آیا تو ویٹو ہوجائے گا۔ امریکہ نے کوئٹہ اور پاراچنار پر دہشت گرد حملوں کی مذمت کی۔ امریکہ نے بھارت کے افغان کردار کو سراہا تاہم امریکہ نے ابھی افغانستان پالیسی ہی وضع نہیں کی، جب وہ بنانے لگیں گے تو انہیں پاکستان کی اہمیت تسلیم کرنا پڑے گی۔ امریکہ کے یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مودی امریکی پالیسی سے ہٹ کر پاکستان اور چین کی طرف اُن کو لے جانا چاہتے ہیں جس پر ٹرمپ کسی صورت راضی نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی بھارت نے اپنا ایک وزیر روس بھیج کر امریکیوں کو شک میں ڈال دیا ہے کہ وہ روس سے بھی اپنے تعلقات رکھے گا۔ اس کے علاوہ 2015ء کے اومابا اور مودی تخیل کوئی ٹرمپ نہیں مانتے، ٹرمپ بھارت کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ چین کے مقابلے میں امریکہ کے سامنے اپنا وزن بڑھائے۔ اس لئے ٹرمپ چینی صدر سے ہمبرگ میں ملاقات کرلیں گے اور شاید اس کالم کے شائع ہونے تک ہوچکی ہو، روس کے طرفدار ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے ٹرمپ چین کو زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں۔ پہلے وہ روس کے ساتھ مل کر چین کو تنہا کرنا چاہتے ہیں اب وہ چین کے ساتھ مل کر روس سے چین کو دور کرنے کی ابتدا کرنا چاہیں گے۔ ٹرمپ بھارت سے ’’امریکہ اوّل‘‘ کے اصول کے حوالے سے زیادہ دام وصول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ 100 بوئنگ طیاروں کا حصول دس سالہ منصوبہ تو ہوسکتا ہے مگر وہ ٹرمپ کی مدت صدارت میں مکمل نہیں ہوگا، اس لئے 30 ملین ڈالر کا بھارت سے تجارت میں امریکہ کا خسارہ برداشت نہیں کرنا چاہتے اور بھارت جو اس سلسلے میں اب تک بچتا چلا آرہا ہے امریکہ کے ہاتھوں پھنستا چلا جائے گا۔ وہ اپنی آزاد پالیسی بھی کھوبیٹھے گا۔ دونوں بڑے ممالک امریکہ اور روس یہ چاہیں گے کہ جو ملک اُن کے ہم پلہ بننا چاہتا ہے اس سے جتنا مال بٹورا جاسکے اس کو بٹور لینا چاہئے ہیں۔ اب بھارت کودو طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے تصور سے دستبردار ہونا ہوگا۔ اگر وہ معاشی طورپر مضبوط رہنا چاہتا ہے تو آزاد پالیسی برقرار رکھنےکو بھی خیرباد کہنا ہوگا۔ امریکہ بھارت کے گرد گھیرا تنگ کررہا ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں کئی مشکلات کا سامنا درپیش تو ہوگا مگر امید ہے کہ شاید پاکستان اُن کا مقابلہ کرلے گااورسرخرو ہو کر نکلے گا۔ مزید برآں بڑی جنگ کو روکنے یا بھارت کا سرجیکل اسٹرائیک کا خواب بکھیرنے کیلئے پاکستان کو کافی کچھ کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین